Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Irfan Javed
  4. Ab Dhoond Unhen

Ab Dhoond Unhen

اب ڈھونڈ انہیں

میں نہ جانتا تھا، ہر گز نہ جانتا تھا، گُمان تک نہ تھا کہ 2025 اپنی تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ میرا منتظر ہوگا۔ اپنے عزیز از جان ابو کا سانحہِ ارتحال ایسا اعصاب شکن و کرب ناک ثابت ہوا کہ حواس معطل، زبان گنگ اور دماغ مفلوج ہو کر رہ گیا، اس سے پہلے ماموں کی اچانک وفات نے دُکھی سے زیادہ حیران کرکے رکھ دیا تھا کہ موت ایسے بھی اچانک، بے وجہ آ سکتی ہے، بندہ ادھر ایک تقریب پر جانے کو تیار بیٹھا ہو اور ہاتھ میں چائے کا کپ ہو، اِک گھونٹ بھرے اور مر جائے، کبھی نہ آنے کے لیے۔ سال کے اوائل میں خوش دامن بھی رخصت ہوئیں۔ یہ تصور کہ ان لوگوں کی آواز کبھی سُنائی نہ دے گی جن کے بغیر زندگی کا تصور محال تھا، یعنی ایسا ممکن ہی نہ تھا کہ آپ زندہ ہوں اور وہ موجود نہ ہوں۔ یعنی آبائی شہر خالی ہو جائے۔ لاہور میں اندھیرے کے سوا کُچھ نظر نہ آئے۔

میرے دادا کے، میرے والد سمیت سات بچے تھے۔ دادا کے چار بیٹے اور ان کی بیویاں اور اولاد ایک گھر میں رہتے تھے۔ ایک غیر شادی شدہ بیٹی بھی وہیں قیام پذیر تھی۔ مشترکہ خاندانی نظام کے تحت رہنے والا بھرا پُرا خاندان لاہور چھاؤنی کے بڑے، وسیع گھر میں چہل پہل، ہنسی مذاق، ڈانٹ گُھرک، کھیل کود میں یوں رونق لگائے رکھتا کہ دِن رات میلے کا گُمان ہوتا۔ قریب ہی، گویا چند درجن گز کے فاصلے پر نانا نانی کی رہائش تھی۔ ان کی ہاں رونق کا عالم اِس کے سوا تھا۔ دِن اسکول، شام دادا دادی کے گھر جو ہمارا گھر تھا اور چھٹیوں کی دوپہریں ہم چار بھائیوں کی نانا نانی کے ہاں گزرتیں۔

پکوان تیار ہو رہے ہیں، امرتسر ٹی وی پر شام کی گیت مالا چتر ہار کا انتظار ہے تو ریڈیو سیلون پر امین سیانی کی من موہنی آواز میں کمپئیرنگ جاری ہے۔ اُدھر ایک ماموں چھت پر کھڑے انٹینے کا رُخ امرتسر کی جانب کر رہے ہیں تو اِدھر دادا نے کشمیری چائے کے ساتھ خستہ باقر خانیوں کی تیاری کا حُکم دے رکھا ہے۔

دونوں خاندان امرتسر سے آئے تھے سو کشمیری امرتسری پکوان ہی تیار ہوتے تھے۔

میں سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ ایک روز سب مر جائیں گے، یا چند ہجرت کر جائیں گے۔

ہر دو جانب اُجاڑا پڑا ہے۔ چھاؤنی میں گھر سے نکل جاؤ کسی اپنے کا چہرہ نظر نہیں آتا، سوائے ایک بیمار چچا اور بیوہ ممانی کے۔

ایسا اُجاڑا پڑا ہے کہ دہائیوں پرانے شناسا دکان دار نہ رہے، وہ بیوپاری جو گویا گھر کے افراد تھے۔ حساب کتاب، تحفہ ادھار اور اب ناپید ہو چُکا جھونگا چلتا تھا۔ برطانوی راج کی دکانیں چلی گئیں، لوہے پتھر کے اجنبی بُلند پلازے کھڑے ہو گئے۔

خوب جانتا ہوں کہ یہ تحریر لکھنے والا بھی مر جائے گا۔ چار دن کی زندگی میں ایک دن سے بھی کم باقی ہے۔ شاید اس سے بھی کم، غالباً۔ اپنا قصہ بھی ماضی ہوگا۔ ختم شُد، انا للّٰہ۔

البتہ حیرت ہوتی ہے اور رشک بھی آتا ہے ان دوستوں پر جو اپنے عزیز رشتوں کی موت پر دوسرے روز لکھ ڈالتے ہیں۔ آدمی کو جانے والے کی موت کا یقین آنے، اس تلخ حقیقت کو ہضم کرنے کو بھی وقت چاہیے ہوتا ہے۔ ایک وقت ہوتا ہے کہ آدمی اور اس کا غم ایک ہوتے ہیں، دونوں مدغم، ایک ہی شخص ہوتے ہیں۔ کُچھ وقت لگتا ہے غم کو اپنے سے علیحدہ کرنے اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے میں۔

کچھ زود رنج و حساس لوگ تو اسے تا عمر اپنے سے علیحدہ نہیں کر پاتے۔

اب کُچھ باتیں سمجھ میں آتی ہیں جو عجیب لگتی تھیں۔

جاوید اکبر ریاض عزیز دوست ہیں، پولیس اور نیب میں اعلیٰ عہدوں پر رہے ہیں۔ ان کی شرافت اور متانت کی گواہی ان کا ہر شناسا دیتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ان کے بیٹے کی شادی تھی۔ خوب ہلا گُلا جاری تھا۔ ان کے بڑے بھائی مالک بھائی، جو میرے لیے بھی ویسے ہی بڑےبھائی ہیں، سب ہلے گُلے کو خاموشی اور اداسی سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو بولے" بھائی یاد آرہا ہے، اس کی کمی محسوس ہو رہی ہے" ان کے ایک بھائی کینسر سے جوانی میں فوت ہو گئے تھے۔ انہوں نے اپنا موبائل نکالا، اس کی اسکرین روشن کی، اس پر مرحوم بھائی کی تصویر تھی۔ بتانے لگے

"میں کئی سالوں سے روز صبح بھائی کا چہرہ چُوم کر دن کا آغاز کرتا ہوں "۔

اُن کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے۔

بعد میں جاوید نے بتایا کہ جب مرحوم بھائی کو سرطان تشخیص ہوا تو مالک بھائی نے خانہ کعبہ سے لے کر پاک و ہند کی کوئی درگاہ، کوئی نمایاں عبادت گاہ نہ چھوڑی جہاں ان کی صحت یابی کی دعا نہ کروائی ہو۔ البتہ مشیت کو کُچھ اور منظور تھا۔

بھائی کی تدفین کے بعد بھی ان کو اس کی موت کا یقین نہ ہوتا تھا۔ جب کُچھ کُچھ یقین آیا تو خاموشی سے قبرستان چلے جاتے اور گورکنوں سے لجاجت سے کہتے" سُنا ہے، ایسی دعائیں ہوتی ہیں جن کو پڑھنے سے مُردہ زندہ ہو جاتا ہے۔ اگر اس قبرستان یا کراچی کے کسی بھی قبرستان میں کسی نے دم دُعا سے مُردہ زندہ کیا ہو تو مُجھے اُس کے پاس لے چلو، منہ مانگا معاوضہ دوں گا"۔

وہ وجہ پوچھتے تو کہتے "مُجھے اپنا بھائی زندہ کرنا ہے"۔

وہ انہیں آرام اور سکون آور ادویات کے استعمال کا مشورہ دے کر رُخصت کرتے۔

ہر شخص کا غم کو محسوس کرنے کا الگ درجہ ہوتا ہے، اسکے اظہار کا طریقہ مختلف ہوتا ہے۔ کوئی حد درجہ حساس ہوتا ہے تو کوئی کٹھور دل۔

بلکہ مُجھ جیسے عاصی، عامی، قلم کے کم تر غلام تو اظہار کر دیتے ہیں، بیشتر تو دُکھ کے عالم میں خاموش ہو جاتے ہیں۔

البتہ میں اُن دوستوں پر رشک کرتا ہوں جو گزر جانے پر والے، والی کی شخصیت پر فوری اظہار پر قادر ہوتے ہیں۔

اور چند ایک تو حیران رہ جاتے ہیں ان کے ساتھ ہوا کیا۔ وہ منتظر رہتے ہیں، جانے والے کو خوب بھینچ کر سینے سے لگانے کو، باوجود اس کے کہ وہ جانتے ہیں، وہ جاننا نہیں چاہتے۔

اب ڈھونڈ انہیں چراغ رُخ زیبا لے کر۔

Check Also

Hum Mein Se Log

By Najam Wali Khan