Sheikhupura Ke Maroof Sheikhu
شیخوپورہ کے معروف شیخو
1922ء میں ضلع کا درجہ پانے والا شیخوپورہ تاریخی، سیاسی اور علمی و ادبی لحاظ سے ایک قابل اہمیت شہر ہے۔ جب ہم پولیس ٹریننگ کالج چوہنگ لاہور میں زیر تربیت تھے، تو اکثر ڈرل اور لاء انسٹرکٹرز ہمیں از راہ تفنن ڈاکو، لڑاکے، بہادر اور جنگجو کہہ کر مخاطب کرتے، اس طرح کے القابات سن کر ہمارا سینہ چوڑا ہوتا اور ایک ہاتھ خود بخود مونچھوں کی طرف بڑھ جاتا۔
دور دراز علاقوں راجن پور، ڈی جی خان، ملتان، بہاولپور، رحیم یار خان، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور خان پور سے آئے ہوئے ساتھی نوجوان جب ہم سے اس بابت دریافت کرتے، تو ہم انہیں سیاسی، تاریخی اور علمی و ادبی شخصیات کا حوالہ دے کر متاثر کرتے۔ ہم انہیں بتاتے کہ ہر علاقے میں اچھے برے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ ہر علاقے میں گولی اور بارود کے دھوئیں کے علاوہ قلم کی روشنی بھی پائی جاتی ہے۔
شیخوپورہ کو گولی اور بارود سے منسلک کردینا محض بائیں بازو کے لوگوں کی رائے معلوم ہوتی ہے۔ شیخوپورہ میں کئی کھلاڑی، سیاستدان، شاعر اور ادیب پیدا ہوئے ہیں۔ تحریر ہذا کا مقصد انہی لوگوں سے واقفیت حاصل کرنا ہے۔ شیخوپورہ ممتاز مفتی ن م راشد، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وحید عشرت، احمد عقیل روبی، ڈاکٹر محمد معروف، اصغر ندیم سید، ڈاکٹر علی محمد خاں اور ڈاکٹر شفیق انجم جیسے لوگوں کا مسکن رہا ہے۔
یہ سبھی لوگ شیخوپورہ میں تعلیم اور روزگار کے سلسلے میں مقیم رہے ہیں۔ روزنامہ نوائے وقت کے بانی اور معروف صحافی حمید نظامی کا تعلق شیخوپورہ کی ایک سابقہ تحصیل "سانگلہ ہل" سے تھا۔ معروف سیاست دان حنیف رامے شیخوپورہ کے ایک قصبے بچیکی کے نواحی گاؤں چک نمبر ۷میں پیدا ہوئے۔ معروف صحافی اور شاعر وقار انبالوی کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا۔
اردو ادب میں افسانہ نگاری کا ایک بہت بڑا نام منشاء یاد کاہے۔ منشاء یاد بھی شیخوپورہ کے قصبہ فاروق آباد میں پیدا ہوئے۔ معاصر افسانے کے تین بڑے نام ممتاز مفتی، احمد ندیم قاسمی اور منشاء یادشیخوپورہ کی دھرتی سے وابستہ رہے ہیں۔ ننکانہ ضلع شیخوپورہ کا حصہ رہا ہے جو بالآخر ۲۰۰۵ء میں خود ضلع بن گیا تھا۔ ننکانہ صاحب کو یہ شرف حاصل ہے کہ سکھ دھرم کے بانی باباگورونانک یہاں ۱۴۲۹ء میں پیدا ہوئے۔
وارث شاہ کے نام سے کون واقف نہیں ہے؟ شیخوپورہ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اس کے نواحی قصبہ جنڈیالہ شیر خاں میں سید وارث شاہ ۱۷٢٢ء میں پیدا ہوئے۔ انہیں اردو اور پنجابی بولنے والے سبھی جانتے ہیں۔ سید وارث شاہ نے ہیر رانجھے کا قصہ لکھا۔ بظاہر تو یہ ایک عشقیہ داستان لگتی ہے۔ لیکن اس میں علم و آگہی اور دانش و بصیرت کے بیش بہا خزینے پائے جاتے ہیں۔
شیخوپورہ مغلوں کی بسائی ہوئی بستی ہے۔ یہاں اکبر بازار، جہانگیر بازار، بابر سٹریٹ، شاہ جہاں سٹریٹ اور عالمگیر سٹریٹ جیسے ناموں سے واسطہ پڑتا ہے۔ مغلوں کا تعمیر کردہ شاہی قلعہ بھی شیخوپورہ کی خوبصورتی میں اضافہ کیے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ 'منسراج" نامی ہرن کی یاد میں تعمیر ہونے والی دنیا کی انوکھی اور مشہور تفریح گاہ "ہرن مینار" بھی موجود ہے، جسے سترھویں صدی عیسوی میں ۱۵۰۰۰۰ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا تھا۔
شیخوپورہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے ایک گاؤں مانگٹانوالہ میں ۱۳ اپریل ۱۸۵۱ء میں سر گنگا رام پیدا ہوئے جن کے نام پر لاہور میں ایک ہسپتال بھی ہے۔ میاں جان محمد ورک پنجابی اور فارسی شاعری کا ایک اہم نام ہے۔ قصہ "یوسف زلیخا"کے خالق صوفی عبدالستار کا تعلق بھی شیخوپورہ سے تھا۔ وہ شیخوپورہ کے نواحی قصبہ کھاریانوالہ میں ۱۸۶۳ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۱۳ء کو قصبہ فیروزوٹواں میں انتقال فرمایا۔ وہ فیروزوٹواں کے قبرستان میں دفن ہیں۔ ان کا تخلیق کردہ قصہ آج بھی ہر گھر میں پڑھا جاتا ہے۔ نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیں۔
الف اکھیاں کسے نہ رکھیاں ہن، اکھیں رکھیاں مول نہ جاندیاں نیں
آپو ڈاہڈیاں نال پیار پاون، آپے روندیاں تے پچھوتاندیاں نیں
مکھ یار دا ویکھ کے ہون راضی، نہ کجھ پیندیاں تے نہ کجھ کھاندیاں نیں
ستار بخش اس حال نوں جان دے ہن، اکھیں پیش جنھاں دے آندیاں نیں
حافظ محمود شیرانی اردو ادب کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ حافظ محمود شیرانی کے بیٹے مظہر محمود شیرانی گورنمنٹ ڈگری کالج شیخوپورہ میں فارسی زبان و ادب کی تدریس سے وابسطہ رہے ہیں۔ پروفیسر صدیق شاہدبھی محکمہ تعلیم سے وابسطہ رہے ہیں۔ وہ ۱۹۹۳ء کو گورنمنٹ ڈگری کالج سانگلہ ہل سے بطور پرنسپل ریٹائر ہوئے۔ ادب میں ان کی پہچان غزل اور نعت کے حوالے سے ہے۔
اب تک ان کی غزل کے چار اور نعت کا ایک مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔ پروفیسر افضل علوی ایک رنگا رنگ ادیب تھے۔ وہ ایک عرصہ تک گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ فارسی سے منسلک رہے۔ ۱۹۹۲ء میں گورونانک ڈگری کالج میں بطور پرنسپل تعینات ہوئے اور پھر وہیں سے ۲۰۰۱ء کو ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ پروفیسر عبدالجبار شاکر جو ایک عرصہ تک پنجاب پبلک لائبریریز کے ناظم رہے ہیں۔
بعد ازاں بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد میں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ پروفیسر غلام رسول آزاد جو کہ ۲۰۰۸ء میں گورنمنٹ ڈگری کالج شیخوپورہ سے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے، پنجابی زبان و ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ڈھولے اور ماہیے کی اصناف کے حوالے سے پاکستان اور بھارت میں ان کی پہچان ہے۔
وہ شیخوپورہ میں علمی و ادبی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں پیش پیش رہے۔ اصغر علی جاوید بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں۔ لیکن کالم نگاری بھی کرتے ہیں۔ ماسٹر الطاف بنیادی طور پر سکول ماسٹر ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک اچھے میوزک ماسٹر بھی ہیں لیکن ان کا اصل کمال ان کی شگفتہ و بے ساختہ شاعری ہے۔ وہ مشاعروں میں جان بھر دیتے ہیں۔
ان کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ نہایت سادہ انداز اور الفاظ میں نہایت گہری باتیں کمال شگفتگی کے ساتھ کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ نظم کے معروف شاعر ارشد نعیم کا تعلق بھی شیخوپورہ کی دھرتی سے ہے۔ ادبی منظر نامے پر وہ کافی متحرک نظر آتے ہیں۔ ان کا لہجہ خوبصورت ہے اور وہ اردو ادب پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ پاکستان کے تقریبا تمام ادبی رسائل میں ان کا کلام شائع ہوتا رہتا ہے۔ نظم ان کا خاص میدان ہے، لیکن وہ غزل بھی خوب کہتے ہیں۔ ان کی نظم سے نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیں۔
کسی نے ساحلوں کی ریت پر
اپنی حسیں پوروں سے مجھ کو لکھ دیا ہے
اور لکھ کر بھول بیٹھا ہے
میں تنہا اور گرفتہ دل
ہوا سے ڈر رہا ہوں
ڈاکٹر خالد ندیم، ڈاکٹر ظفر مقبول، اظہر عباس، فرخندہ باجوہ، نگہت خورشید اور اور معروف افسانہ نگار فضل محمود کا تعلق بھی شیخوپورہ سے ہی ہے۔ علاوہ ازیں راقم کا تعلق بھی شیخوپورہ سے ہے۔ راقم کالم نویس اور افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ کالج میں بطور لیکچرر اردو اپنی خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ تحریر ہذا میں جتنی نامور شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے، راقم کی نظر میں وہ سب شیخوپورہ کے شیخو ہیں۔