Mrasi e Anees Mein Darya Ke Rang
مراثیِ انیس میں دریا کے رنگ
کربلا کا منظر نامہ جن عناصر و اجزاء سے ترتیب پاتا ہے، ان میں دریا کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ یہ دریا اس زمین پر واقع ہے جہاں آسمان سے آگ برستی ہے، لیکن اس کی ترائی میں ہوا معتدل اور موسم خوشگوار ہے۔ یہاں پہنچ کر بدن کو جھلسا دینے والی گرمی سے جگر کو ٹھنڈک اور جسم کو سکون ملتا ہے۔ اسی لیے سب کی نگاہ اسی کی طرف جاتی ہے۔ واقعہ کربلا میں دریا کے نمایاں رہنے کا ایک اور بلکہ اصل سبب یہ ہے کہ کربلا بھوک اور پیاس کی کہانی ہے۔
پیاس کا انگیز کرنا بھوک سے زیادہ مشکل ہے اسی لیے واقعہ کربلا میں پیاس کا ذکر بار بار آتا ہے اور بار بار ہم دریا کو آنکھوں کے سامنے آتا ہوا دیکھتے ہیں۔ لیکن انیس کا دریا محض منبع آب نہیں ہے۔ وہ کربلا کی ہر صورت حال سے متاثر ہوتے ہیں اور اس کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ جس طرح یہ دریا کربلا میں رونما ہونے والی صورتوں اور حالتوں سے متاثر ہوتا ہے، اسی طرح یہ خود بھی ان صورتوں اور حالتوں کو متاثر کرتا ہے۔
یعنی انیس کا دریا ایک ایسا حرکی پیکر ہے جو شروع سے آخر تک حرکت میں رہ کر کربلا کے پورے منظر نامے کو متحرک رکھتا ہے۔ دریا اور پانی کو انیس نے اپنی تحریروں میں کس کس انداز میں پیش کیا ہے، آئیے دیکھتے ہیں!؎
ایسا کوئی صحرا بھی ہے اے بندہ اللہ
اک نہر سوا جس میں ہو چشمہ نہ کوئی چاہ
امام حسینؑ جب مدینہ سے کربلا کے لیے نکلتے ہیں تو راستے میں ہر ایک سے دریافت کرتے ہیں کہ اس صحرا کی خبر دیجیئے جس میں ایک نہر ہو۔ اس کے بعد اگلا شعر پیش خدمت ہے۔ ؎
بجھتی نہیں واں پیاس کسی تشنہ گلو کی
بو آتی ہے اس نہر کے پانی میں لہو کی
اس شعر میں انیس نے خوف اور اندیشے کی آمیزش کے ساتھ حیرت اور اسرار کی فضا پیدا کرنے میں جو کمال دکھایا ہے، اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ پانی میں لہو کی بو آنے کا مطلب یہ نہیں کہ پانی پینے کے لائق نہیں۔ دوسرے تمام لوگ اس دریا یا نہر کا پانی پی لیں گے۔ لیکن امام عالی مقام کے ہمدرد عناصر اس پانی کو اس لیے نہیں پیتے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس میں کس کے لہو کی بو ہے۔ گویا انہوں نے پانی میں اس المیے کی تصویر کو دیکھ لیا ہے جو کربلا میں رونما ہونے والا ہے۔ اسی لیے وہ سیراب ہونے کے بجائے ان پیاسوں کے غم میں بے آب رہنا چاہتے ہیں جن کو یہ پانی میسر نہیں آئے گا۔ اس سے اگلا شعر ملاحظہ فرمائیں!؎
ہم اور خوف جاں سے لڑائی کو چھوڑ دیں
دیکھا نہیں کہ شیر ترائی کو چھوڑ دیں
امام اور جناب زینبؑ آئندہ کے المناک نتائج کی وجہ سے جس زمین سے بیزار و بدظن ہیں، ان کے انصار کو وہی زمین پسند ہے۔ ان کے لیے خیمے نصب کرنے کی عمدہ اور مناسب جگہ یہی ترائی ہے اور چونکہ دشمن کی فوج بھی اسی زمین کی مدّعی ہے اس لیے دریا دونوں کے درمیان نزاع کا باعث بن گیا ہے۔ شامی لشکر نے حسینؑی قافلے کو خیمے نصب کرنے سے منع کردیا ہے، جس پر جناب عباس طیش میں آگئے ہیں اور انصار و اعزا بپھرے ہوئے ہیں۔ اس شعر میں بھی پورا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ مرقع نگاری میں انیس کو بلند مقام حاصل ہے۔ اگلا شعر ملاحظہ فرمائیں!؎
پانی تھا آگ گرمی روز حساب تھی
ماہی جو سیخ موج تک آئی کباب تھی
انیس کا دریا جارحانہ رویہ بھی اختیار کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس منظر میں بھی انہوں نے دریا کا جارحانہ پیکر تخلیق کیا ہے جس میں گرمی کا عالم اپنی انتہا پر ہے اور گرمی کے اسی عالم میں پانی کی ضرورت کا احساس بھی بڑھتا جا رہا ہے اور پھر وہ لمحہ آتا ہے جب امام پر پانی بند کر دیا جاتا ہے۔ پانی بند کرنے کی وجہ سےبھی دریا کی موجیں غم و غصے میں مبتلا ہیں۔ دریا پر ایک عجیب کیفیت طاری ہے۔ امام کے لشکر کی تشنگی پر دریا کے احساس الم کا اس سے بہتر پیکر نہیں بن سکتا۔ انیس کہتے ہیں!؎
پیاسی جو تھی سپاہ خدا تین رات کی
ساحل سے سر پٹکتی تھیں موجیں فرات کی
امام کے لشکر کی تشنگی پر دریا میں احساس الم نظر آتا ہے اور دوسری طرف امام کے دشمن جب پانی پینے دریا پر پہنچتے ہیں تو دریا کی کیفیت ملاحظہ فرمائیں!؎
ہر موج کا خم اس کے لیے ناگ ہوا تھا
پانی کا بھی اس وقت مزاج آگ ہوا تھا
واقعہ کربلا اور دریا کا استعارہ جس طرح سے اور جن مختلف معنویتوں میں انیس نے استعمال کیا ہے، اس طرح نہ تو کوئی اور استعمال کرسکتا ہے اور نہ ہی کیا ہے۔ انیس کے مرثیوں میں دریا بہت پہلے سے ہی دکھائی دینے لگ جاتا ہے۔ اپنی صورتوں اور حالتوں کو بدلتا ہوا اور دوسری صورتوں اور حالتوں پر اثر انداز ہوتا ہوا۔ یہ دریا بار بار قاری کی آنکھوں کے سامنے آتا ہے۔ امام حسینؑ کے آغاز سفر سے لے کر میدان کربلا کے آخری مقام تک ہم اسے طرح طرح سے دیکھتے ہیں۔ یہ ہماری نگاہ میں اس حد تک سما جاتا ہے کہ پوری کربلا ہمیں اسی کے سینے پر رقم ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ امام حسینؑ کے علم اور جناب زینبؑ کے وجدان میں بہت پہلے سے موجود اس دریا کے بہت سارے رنگ ہیں لیکن ہم اس کے اسی رنگ کو سب سے زیادہ نمایاں ہوتا ہوا دیکھتے ہیں، جسے مرد مسافر نے معرکہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس طرح دکھادیا تھا؎
بجھتی نہیں واں پیاس کسی تشنہ گلو کی
بو آتی ہے اس نہر کے پانی میں لہو کی