Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Imtiaz Ahmad/
  4. Manto Waris Alvi Ki Nazar Main (2)

Manto Waris Alvi Ki Nazar Main (2)

منٹو وارث علوی کی نظر میں (2)

"آؤ" میں گیارہ ڈرامے ہیں۔ کشور، اس کی بیوی لاجونتی اور ان کا دوست نرائن تمام ڈراموں کے مستقل کردار ہیں۔ بعض ڈراموں میں ایک دو دوسرے کردار بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ ان ڈراموں کے موضوعات ایسے ہیں کہ اگر نرائن یا دوسرے کردار شامل نہ ہوتے تو ڈراما میاں بیوی کی نوک جھوک سے آگے نہ بڑھتا۔ لیکن نوک جھوک صورت حال میں اور صورت حال دلچسپ پلاٹ میں بدلتی ہے۔"آؤ کہانی لکھیں " نہایت دلچسپ ڈراما ہے۔ اس میں کشور لاجونتی اور نرائن مل کر کہانی لکھنے کا جو ڈاواں ڈالتے ہیں وہ ان کے خود کی سچوئیشن، عورت مرد کے تعلقات کے متعلق ان کے خیالات اور ایک دوسرے کی طرف ان کے جذباتی رویوں کا آئینہ بن جاتا ہے۔ میاں بیوی جس طرح کہانی لکھواتے ہیں اور ہر واقعہ پر ان کے درمیان جو جھگڑا ہوتا ہے وہ کہانی میں دلچسپی کے عنصر کو بڑھاتا رہتا ہے۔

"آؤ" کے ڈراموں میں سب سے اچھا ڈراما ہے "آؤ چوری کریں " وجہ یہ ہے کہ اس میں کامک ڈرامے کی وہ الجھنیں پیدا ہو گئی ہیں جن میں پھنسے ہوئے کرداروں کی بوکھلاہٹ پر بے ساختہ ہنسی آجاتی ہے۔ بیویوں نے شوہروں کو اور شوہروں نے بیویوں کو قابو کرنے کے منتر دلی کے کسی رام پوشاسن جی سے منگائے ہیں، اور لاجونتی، مسز نرائن کا پارسل کھول لیتی ہے اور خوب گڑ بڑ گھوٹالے پیدا ہوجاتے ہیں۔

"کروٹ" اور "منٹو کے ڈرامے" کے کل 46 ڈراموں میں زیادہ تر سسپنس، تھرلر اور فنی کہانیوں کے اندر ڈرامے ہیں۔ ان میں انوکھے واقعات، تعجب خیز حادثات، غیر متوقع انجام، تھٹریکل مکالمات اور سنسنی خیزی سے کام لیا گیا ہے۔ یہ ڈرامے عام تفریح کی سطح سے بلند نہیں ہو پاتے۔ ان کے کرداروں میں کوئی نفسیاتی گہرائی یا فکر انگیز اخلاقی کشمکش نہیں ہے۔ یہ کردار اگر نقوش سے ابھر کر خدو خال پیدا کرتے ہیں تب بھی قلمی دنیا کے مانوس اور نمائندہ کرداروں کی سطح سے بلند نہیں ہو پاتے۔ ان ڈراموں کی تھیم میں بھی کوئی بصیرت کی بات نہیں۔ بے شک منٹو کی فنکارانہ چابک دستی سے ان میں ایک طرح کی سلاست پیدا ہوئی ہے۔ لیکن تفریحی ڈراموں کا کرافٹ اور فارمولا بہت تیزی سے بدلتا ہے۔ کہانی فرسودہ اور کردار ٹائپ بن جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے فارمولے اور نئے ٹائپ لے لیتے ہیں۔

"کروٹ" کا پہلا ڈراما کروٹ ہے۔ شریفوں کے محلہ میں ایک طوائف رہتی ہے جس کے یہاں شرابی لوگ شراب پی کر ہلا گلا کرتے ہیں۔ محلہ کے صرف ایک آدمی کو اس عورت سے ہمدردی ہے۔ وہ اسے اپنے گھر اپنی بیوی اور لڑکی کے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت تک دیتا ہے۔ طوائف اس سے بہت اہانت آمیز طریقہ سے پیش آتی ہے لیکن یہ شریف آدمی اپنی توہین بھی برداشت کر لیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ انسان کی ہر وقت اصلاح ہو سکتی ہے اس لیے کہ اس میں نیکی کا جوہر کبھی فنا نہیں ہوتا۔ خطر ناک سے خطر ناک مجرم کے سینے میں بھی کسی کونے کے اندر نور کا ایک ذرہ ہوتا ہے جسے اگر چھیڑا جائے تو اس کے سیاہ دل کو منور کرنے کا موجب ہو سکتا ہے۔

آخر طوائف پر اس کی خوش اخلاقی کا اثر پڑتا ہےاور وہ اپنے پیشے سے تائب ہو جاتی ہے۔ اب یہ نیک دل آدمی اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اور خود کو اس کے عاشق کے طور پر پیش کرتا ہے گویا اس کی شرافت محض ڈھونگ تھی اور آئیڈیلزم عیاری۔ آدمی جو کچھ نظر آتا تھاحقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ طوائف غم و غصہ اور مایوسی کے عالم میں پھر سے اپنا پیشہ شروع کر دیتی ہے۔ یہ ڈراما اخلاقی تضاد کو پیش کرتا ہےلیکن ڈرامے میں منٹو نے طنز کو اپنا کھیل نہ تو طربیہ کی سطح پر نہ المیہ کی سطح پر کھیلنے دیاہے اسی لیے نہ تو وہ کامیڈی تخلیق ہوتی ہے جو ترغیبات کے شکار تیز بیوی اور دیشیا کے بیچ شٹل کاک کی طرح پٹنے والے شوہر کے تماشے سے پیدا ہو سکتی تھی، نہ وہ ٹریجڈی جو ایک آدرش پسند آدمی کے طوائف کی اصلاح کرتے کرتے خود اس کا شکار بن جانے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ تکنیکی کمزوری کی وجہ سے ڈرامہ سطحیت کا شکار ہو گیا ہے۔ ورنہ ڈرامے کے لیے یہ خیال برا نہیں تھا کہ آئیڈیالزم کو گنہگار میں نور کا ذرہ نظر آتا ہے لیکن خود نیک آدمی میں رہے ہوئے شر کے عنصر کو دیکھ نہیں پاتا۔

"انتظار اور انتظار کا دوسرا رخ "وہ ڈرامے ہیں کہ پہلے ڈرامے میں انتظار کرب، جذبات کا ہیجان، محبوبہ آئے گی یا نہیں آئے گی کا شش و پنج بہت ہی اثر آفریں طریقے پر پیش کیا گیا ہے۔ انتظار کی ذہنی کیفیات کی پیش کش کے لئے منٹو منتظر کے منطقی وجود سے کام نکالتا ہے۔ منطقی وجود محبوبہ کے آنے پر کامل یقین رکھتا ہے۔ اخبار والا اور منتظر کے دوست کی بے وقت آمد سے منتظر کی پریشانی اور بے صبری کو زیادہ شدید بنایا گیا ہے۔ آخر میں منتظر بے ہوش پڑا ہے۔ دوست جو ملنے آتا ہے ڈاکٹر کو بلانے جاتا ہے۔ محبوبہ آتی ہے۔ دیکھتی ہے کہ حضرت مزے سے سو رہے ہیں اور لوٹ جاتی ہے۔"انتظار کا دوسرا رخ" میں بلقیس کو آنے میں کیوں دیر ہوتی ہے اس کا دوسرا رخ دکھایا گیا ہے۔ ظاہر ہے اس ڈرامے میں کردار زیادہ ہیں۔ بلقیس کی ماں، بلقیس کا باپ، بلقیس کا بھائی، اس کی چھوٹی بہن، سب کے سب کسی نہ کسی طرح کوئی نہ کوئی کام بتا کر اس کے جانے میں مانع ہوتے ہیں۔ اگر انتظار میں پورا عمل داخلی تھا تو اس ڈرامے میں پورا خیال خارجی ہے۔ بلقیس کے آنے میں پورا کا پورا گھر گویا حناں گیر تھا۔

اس حوالے سے وارث علوی لکھتے ہیں: "اس نوع کے ڈراموں میں حناں گیری کا نقشہ اس قدر سوچا سمجھا ہوتا ہے کہ گفتگو برجستگی مجروح ہو جاتی ہے۔ یہ ڈرامہ اس سقم سے بچ گیا ہے جو منٹو کی فنکارانہ چابک دستی کا ثبوت ہے۔" (منٹو ایک مطالعہ)

"ٹیڑھی لکیر" منٹو کے اسی نام کے افسانے پر مبنی ہے۔ ڈراما افسانے سے زیادہ کامیاب ہے۔ یہ ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو ہر بات میں دوسروں سے الگ راستہ اختیار کرتا ہے۔ اس کے دوستوں کو بہت تعجب ہوتا ہےجب وہ شادی کے لیے رضا مند ہوجاتا ہے کیونکہ شادی اور اس کی رسومات کا وہ ہمیشہ مذاق اڑایا کرتا تھا۔ بہر حال اس کی شادی تمام رسومات کے ساتھ ہی ہوتی ہے جس پر اس کے دوست خوب ہنستے ہیں۔

جاوید ان کے پاس آ کر اپنے ایک دوست سے سو روپے مانگتا ہے جو اس نے ادھار دیئے تھے۔ وجہ یہ بتاتا ہے کہ لڑکی کو اغوا کرنا چاہتا ہے۔ اور وہ اپنی بیوی کو اغوا کر جاتا ہے۔ لڑکی والے دس روز سے پریشان تھے کہ لڑکی کس کے ساتھ بھاگ گئی اور جاوید کو جواب کیا دیں گے۔ اب اس کا خط پڑھ کر مزید حیران ہوتے ہیں کہ نکاح ہو گیا تھا۔۔ بیوی اس کی۔۔ جب چاہتا لے جا سکتا تھا۔ لیکن جاوید اب اسے کیا کہا جائے۔ ٹیڑھی لکیر ہی تھا۔

میری نظر میں منٹو کے صرف دو ڈرامے ہی ایسے ہیں جو ادب میں ایک پائیدار مقام کے مستحق قرار پائیں گے۔ ان میں سے ایک تو خود ان کے افسانے"ہتک" کا ڈرامائی روپ ہے اور دوسرا "جرنلسٹ۔ ہتک" اور"جرنلسٹ" دونوں کی کامیابی کا سبب فارم کا وہ ڈراپ سین ہے جس کے مواقع یا تو دوسرے تفریحی ڈراموں میں منٹو کو ملے نہیں یا یہ ڈسپلن پیدا کرنے سے وہ خود قاصر رہا۔

Check Also

Professional Life Ki Doosri Innings Bharpoor Khelen

By Azhar Hussain Azmi