Manto Waris Alvi Ki Nazar Main (1)
منٹو وارث علوی کی نظر میں (1)
سعادت حسن منٹو کی شخصیت میں دلچسپی کا آغاز ان کے نام ہی سے ہو جاتا ہے۔ شروع میں سب ہی کو حیرت ہوتی ہے کہ یہ منٹو کیا ہے۔ بلونت گارگی لکھتے ہیں۔"بہت عجیب نام تھا۔ منٹو جیسے لارڈ منٹو، پنٹو۔۔ یا ومٹو، بہت نقلی یا مضحکہ خیز! منٹو کے نام میں سعادت حسن کی پوری ادبی اور غیر ادبی شخصیت سمٹ آئی تھی۔ منٹو کو بھی اس کا احساس تھا چنانچہ لکھتے ہیں:"اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو نہ مرے"۔
اردو میں منٹو مختلف تلفظ سے بولا جاتا ہے۔ کبھی اسے مِنٹو، کبھی مَنٹو اور کبھی منٹّو بولا جاتا ہے۔ منٹو کی اصلیت کے بارے میں خود منٹو کا کہنا ہے۔ "کشمیر کی وادیوں میں بہت سی ذاتیں ہوتی ہیں جن کو آل کہتے ہیں جیسے نہرو، سپرو، کِچلو وغیرہ۔۔ منٹ کمشیری زبان میں تولنے والے بٹے کو کہتے ہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد اتنے امیر تھے کے سونا اور چاندی بٹوں میں تول تول کر رکھتے تھے۔"
منٹو کی زندگی اور کارناموں پر پہلی تحقیقی اور جامع کتاب ڈاکٹر برج پریمی نے لکھی ہے۔ اس میں انہوں نے منٹو کی وجہ تسمیہ کاسراغ ان کی اصل میں لگایا ہے۔ ان کے نزدیک منٹ کے معنی ڈیڑھ سیر ہوتے ہیں۔ منٹو کی رفیقہ حیات صفیہ بیگم نے برج پریمی کو بتایا کہ "منٹو قبیلے کے مورثِ اعلیٰ چونکہ مالیہ کے طور پر ڈھائی سیر کا تقاضا کرتے تھے اس لیے منٹو کہلائے۔ لیکن صفیہ بیگم کے اس خیال کی تصدیق برج پریمی کسی دوسرے ماخذ سے نہ کر سکے۔ اس کے برعکس ایک اور سبب کا ذکر ڈاکٹر صاحب مشہور کشمیری مورخ محمد دین فوق کی تاریخ اقوام کشمیر کے حوالے سے اس طرح کرتے ہیں " کہتے ہیں ان کا بزرگ ایک ہی وقت میں شرط باندھ کر ڈیڑھ سیر یا من وٹی چاول کھا گیا تھا۔ اس وقت سے اس کا نام منٹو پڑ گیا تھا۔
ڈاکٹر برج پریمی اپنی تحقیقی کاوشوں کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ منٹو اور من وٹی دونوں قسط باشی پنڈتوں کی ذاتیں ہیں۔ قسط باشی پنڈت کشمیر میں زمانہ قدیم کے اہل حرفہ لوگوں سے سرکاری ٹیکسوں کی وصول یابی کرنے والے سرکاری کارندے تھے۔ قسط باشیوں میں سے جن لوگوں نے اسلام قبول کیا وہ منٹو کہلائے اور جو لوگ ہندو دھرم پر قائم رہے وہ من وٹی کہلانے لگے۔ عصر حاضر میں دونوں ضمنی قومیں کشمیر میں ملتی ہیں۔
منٹو کا آبائی خاندان اٹھارویں صدی کے اواخر میں کشمیر سے ہجرت کر کے پنجاب آیا اور لاہور میں سکونت اختیار کر لی۔ اس سلسلے میں بیگم صفیہ منٹو نے ڈاکٹر برج پریمی کو جو تفصیلات بتائیں وہ یہ ہیں۔"اس خاندان کے پہلے بزرگ جو پنجاب کے دارالسلطنت لاہور میں آ کر مقیم ہوئے خواجہ رحمت اللہ تھے۔ پیشہ سوداگری تھا اہل اللہ سے گہری محبت رکھتے تھے۔ ان کے پوتے خواجہ جمال الدین نے کاروبار کو بہت فروغ دیا اور اسے لاہور، امرت سر اور بمبئی میں پھیلا دیا۔
امرت سر بوجہ دربار صاحب سکھوں کا مقدس مقام تھا۔ اس لیےخواجہ صاحب لاہور چھوڑ کر امرت سر میں مستقل طور پر مقیم ہو گئے۔ خواجہ جمال الدین منٹو کے دادا تھے۔ ان کے پانچ بیٹے تھے۔ سب سے چھوٹے بیٹے کا نام مولوی غلام حسن جو منٹو کے والد بزرگوار تھے۔ مولوی غلام حسن نے دو شادیاں کیں۔ ان کے بارہ بچے ہوئے جن میں سے چار لڑکے تھے اور آٹھ لڑکیاں۔ منٹو ان کی دوسری بیوی سے تھے۔ منٹو کے تین سوتیلے بھائی تھےجو عمر میں ان سے کافی بڑے تھے اور تعلیم یافتہ تھے۔ منٹو کی ایک ہی حقیقی بہن تھی جن کا نام اقبال بیگم تھا۔ وہ بھی عمر میں منٹو سے کافی بڑی تھیں اور منٹو اقبال بیگم سے ڈرتے بھی تھے۔ وہ بمبئی (ماہم)میں رہتی تھیں۔ صفیہ بیگم سے منٹو کی شادی انہی کی سعی کا نتیجہ تھی اور شادی کے سلسلے میں منٹو کی والدہ جب بمبئی آئیں تو ماہم میں اقبال بیگم کے گھر میں ہی قیام کیا تھا۔
منٹو کے والد مولوی غلام حسن تعلیم یافتہ تھے اور سمرالہ میں جو لدھیانہ سے بائیس میل دور چندی گڑھ جانے والی سڑک پر ایک گاؤں ہے کسی سرکاری عہدے پر متعین تھے۔ سمرالہ میں 11 مئی 1914ء میں سعادت حسن منٹو کا جنم ہوا۔ منٹو کے والد بھی کشمیریوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ منٹو کو بھی اپنے کشمیری ہونے پر فخر تھا اور اگر انہیں کوئی کشمیری مل جاتا تو اپنے والد ہی کی مانند اس سے گرم جوشی سے ملتے اور اسے بتلاتے کہ میں بھی کشمیری ہوں ویسے امرت سری ہوں۔ کشمیر سے والہانہ محبت کے باوجود منٹو زندگی بھر کشمیر نہ جا سکے۔
ان کا سفر صرف بٹوت تک رہاجہاں تپِ دق کے علاج کیلئے انہیں چند مہینے قیام کرنا پڑاتھا۔ یہیں انہیں ایک آوارہ کشمیری چرواہی لڑکی سے رومانی قسم کا انس ہو گیا تھا جو ان کا پہلا اور آخری اور انہی کے الفاظ میں نا پختہ معاشقہ تھا۔ اس کی یاد ان کے چند ابتدائی اور اتنے ہی نا پخت افسانوں میں محفوظ ہے۔ رومانی محبت پر منٹو کے یہاں ان افسانوں کے علاوہ کوئی دوسری اہم تحریر نظر نہیں آتی۔ زندگی میں کوچہ عشق اور وادی رومان سے وہ بہت جلد باہر نکل آئے۔
وارث علوی منٹو کی مقالمہ شناسی پر کچھ اس انداز سے رقمطراز ہیں: "منٹو مکالمہ نویسی میں مشاق تھا۔ بات سے بات پیدا کرنا، بات کا بتنگڑ بنانا، بات چیت کو بحث میں، کاروباری گفتگو کو جھڑپ میں، میاں بیوی کی نوک جھوک کو جھگڑے میں اور جھگڑے کو دلچسپ ڈرامے میں بدلنے کے سبب گو اسے یاد تھے۔" (منٹو ایک مطالعہ)
ڈرامے:
منٹو کے ابتدائی ڈرامے سے جو "تین عورتیں " اور "آؤ" نام کے مجموعوں میں شامل ہیں، مکالموں کے زور پر تحریر کیے گئے ہیں۔ ان کی ظرافت اور مزاحیہ صورت حال اور ظریف کرداروں کے باہمی عمل کا نتیجہ کم اور چمکدار اور بے تکلف مکالموں کی رہن منت زیادہ ہے۔"تین عورتیں " کے ڈراموں میں تو ڈرامائی صورت حال کا فقدان ہے۔ سچوئیشن کامیڈی کا لطف اس بات میں ہے کہ ہمیں پتا نہ چلے کہ جو صورت حال پیدا ہو رہی ہے اس میں کردار کیا کریں گے۔ لیکن "تین عورتیں " کے ڈراموں میں ہم جان لیتے ہیں کہ تین صلح پسند عورتیں جھگڑالو ثابت ہوں گی۔ اور تین خاموش عورتیں بہت باتونی۔۔ اور تین بیمار پرس عورتیں اپنے اوٹ پٹانگ مشوروں اور نسخوں سے مریضہ کی جان ضیق کر دیں گی۔ لہذا ان ڈراموں کے چند ہی مکالموں کے بعد ہمیں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ خاموش عورتوں کو باتونی بنانے کے لیے ڈرامہ نگار باتونی عورت کی بات کو دلچسپ بنائے بغیر اسے پھیلا رہا ہے۔ اور ہمیں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں ہنسانے کے لیے وہ بیمار پرس عورتوں کے منہ سے ایسے الٹے سیدھے علاج اور ٹوٹکے بیان کر رہا ہے جو مزاحیہ صورت حال کے نفسیاتی تقاضوں کا احترام نہیں کرتے۔
اچھی کامیڈی میں دو باتیں ہوتی ہیں، ایک تو یہ کہ صورت حال اور مکالموں میں کوئی غیر متوقع بات کے ذریعے مزاح پیدا کیا جائے اور دوسری یہ کہ ایسی سچوئیشن پیدا کی جائے جس میں تماشائی تو یہ جانیں کے کیا ہو رہا ہے لیکن ڈرامے کے کرداروں کو پتا نہ ہو کہ وہ کون سی مصیبت کو دعوت دے رہے ہیں۔ چونکہ ان ڈراموں کی اساس صورت حال سے زیادہ مکالموں پر قائم ہے تو سچوئیشن کا میڈی کے ان تقاضوں کا خیال نہیں رکھا گیا۔ چنانچہ وہی ڈرامے کچھ لطف دے جاتے ہیں جن میں مکالموں سے صوت حال کو تعمیر کرنے کا کام نہیں لیا گیا۔ بلکہ مکالمے فی نفسہ دلچسپ بن گئے ہیں۔ "تین خوبصورت عورتیں " میں عورتوں کے بناؤ سنگھار سے متعلق بات چیت میں اس بے وقوفی کا عنصر کچھ لطف دے جاتا ہےجس سے سنگھار میں مشغول عورتیں احمق چوہیاں نظر آتی ہیں۔"تین صلح پسند عورتیں " ڈرامہ پھر اس لیے دلچسپ بن جاتا ہے کہ عورتوں کی طعنہ زنی کے حوالے سے منٹو کا قلم خوب گل کھلاتا ہے۔