1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ilyas Kabeer/
  4. Habib ur Rehman Batalvi (1)

Habib ur Rehman Batalvi (1)

حبیب الرحمٰن بٹالوی (1)

حبیب بٹالوی صاحب سے تعلقِ خاطر ربع صدی تک محیط ہے۔ یعنی پچیس برس اور کسی انسان کی زندگی میں پچیس برس زیست کا ایک بڑا حصہ ہوتا ہے۔ حاصلات، ممکنات اور لاحاصلی و لایعنیت کی ملی جلی کیفیات کے ساتھ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملک پر مشرف آمریت کے گہرے سائے منڈلا چکے تھے۔ آمرانہ جبر اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ اینٹھتا پھر رہا تھا۔ روشن فکر لوگوں کے بولنے، سوچنے اور لکھنے پر براہ راست قدغن تو نہیں تھی لیکن خوف و دہشت کی فضا بہرکیف موجود تھی۔ قلب و نظر سے عاری کھلے بندوں پھر رہے تھے۔ گویا:

ہے اہلِ دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد

کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد

انہی دنوں حرف و معنی کی جستجو اور فکرِ معاش مجھے ہزاروں سالہ قدیمی شہر ملتان کھینچ لائی۔ فکرِ دنیا میں سر کھپانے کے لیے اس کے گلی کوچوں میں کشاں کشاں پھرتا رہا۔ پرہلاد کے اس شہر کے در و بام سے کہنگی جھلکتی اور تاریخ ورق پلٹتی ہے تو کتنے ہی دلکش منظر اور کتنے ہی باصفا لوگوں کے چہرے جلوہ ریز ہوتے ہیں۔ انہی منظروں اور چہروں کے درمیان ایک روشن، معصوم اور طمانیت بھرا چہرہ حبیب بٹالوی کا بھی دکھائی دیتا ہے۔ دراز قامت، منحنی جسامت، درویشانہ عجز و انکسار اور خلوص و للہیت کی مجسم تصویر۔ یہ سب خصوصیات بظاہر نحیف و نزار شخص کی نمائندگی کرتی ہیں، لیکن یہی چیزیں کسی صاحبِ کردار فرد کے لیے سب سے بڑی ڈھارس بھی ہے۔

گرمیوں کے دن تھے اور سورج کا سبھاؤ کچھ زیادہ ہی بھاؤ کھا رہا تھا۔ دارِ بنی ہاشم پہنچا تو وسیع دالان میں موجود لسوڑی کے درخت کے نیچے بان کی چارپائی پر سید عطاء المحسن بخاری (خدا ان کی لحد کو نور سے بھر دے) براجمان تھے۔ انہی کے ساتھ حبیب بٹالوی کچھ لکھنے میں مصروف تھے۔ دھان پان سی جسامت اور نستعلیق مزاج کے بموجب وہ اپنی ہی وضع کے نہایت منفرد شخص دکھائی دیے۔ ان سے علیک سلیک ہوئی تو وہ نہایت دھیمے مزاج اور دوستی میں عزت آمیز احترام دینے کے متمنی دکھائی دیے۔ نہایت شریف النفس اور حلیم الطبع۔۔ انھیں دیکھتے ہی جوش کا یہ شعر ذہن میں گونجنے لگا۔

بہت جی خوش ہوا اے ہم نشیں کل جوش سے مل کر

ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں

اور وہ واقعی اگلی شرافت کا ایک مثالی نمونہ تھے۔ جن میں چاہے جانے کی وہ تمام خصوصیات مجتمع تھیں جو اب ناپید ہیں۔ اگر آج کہیں"شرافت" دکھائی بھی دے تو اس میں شر اور آفت کی آمیزش ہوتی ہے۔ حقیقی شرافت تو اب چنیدہ لوگوں میں ہی پائی جاتی ہے۔

یہ حبیب بٹالوی سے پہلی ملاقات تھی۔ عام طور پر پہلی ملاقات یادگار بھی ہو سکتی ہے اور سرسری بھی۔ جس کے نقوش تادیر بھی رہ سکتے ہیں اور فوراً طاقِ نسیاں میں بھی چلے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں معاملہ یکسر مختلف تھا۔ ایسے تعلق کی نیو اٹھائی گئی جس نے دو دہائیوں سے زائد تک رہنا تھا۔ اس ملاقات کے نقوش ہمیشہ کے لیے دل و دماغ پر نقش ہو گئے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ وہ ملتان ایسے محبتی شہر کے مکین تھے۔ اگرچہ وہ بٹالہ سے آئے تھے اور بٹالہ کی مٹی سے انھیں انس اور اپنائیت بھی بہت تھی اور بٹالہ کو اپنے نام کا حصہ بھی بنایا تھا، لیکن اب ان کی تحریر و تقریر کی توجہ کا مرکز ملتان ہی تھا۔ یہاں کی زمینی مہک انھیں مہکائے ہوئے تھی اور وہ اسی کی مہر و وفا میں رچے بسے دکھائی دیتے تھے۔ ہمارے ارشد ملتانی نے شاید ایسے لوگوں کے بارے میں ہی کہا تھا:

ڈھونڈے سے بھی نہ پاؤ گے ارشد جہاں میں

خوئے وفا و مہر جو ملتانیوں میں ہے

حبیب بٹالوی سے دوست داری مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔ قریب قریب روزانہ کی بنیاد پر ان سے ملاقاتیں رہتیں۔ ان ملاقاتوں میں ملتان کا ادبی منظرنامہ زیر بحث آتا، کبھی سیاست کی غلام گردشوں میں بھٹکتے کرداروں کو بے نقاب ہوتے دیکھا جاتا۔ کبھی ان کی تخلیقات کا ذکر چل نکلتا تو میں انھیں کتابی صورت میں لانے کے لیے اصرار کرتا۔ وہ پس و پیش سے کام لیتے، اور کسی اور دن کے لیے اسے موقوف کر لیتے۔

وہ تعلق نبھانا جانتے تھے اور تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی مختلف خوش نمائیاں کرتے رہتے تھے۔ کسی دوست کی خوشی اور غم کو اپنے اندرون تک محسوس کرتے تھے۔ یہ اپنائیت کی ایسی خصوصیت ہے۔ جو بہت کم لوگوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ میں 2009ء میں جب رشتہءازدواج سے منسلک ہوا تو وہ طویل سفر کرکے خصوصی طور پر میرے گاؤں میراں پور (میلسی) تشریف لائے۔ یہ بہرحال میرے لیے نہایت خوش کن اور یادگار لمحہ تھا۔

15مارچ 2022ء کو میرا روڈ ایکسیڈنٹ ہوا اور جب حبیب بٹالوی کو خبر ہوئی تو وہ فوراً بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچے۔ پھولوں کے ساتھ ہمت و حوصلہ دیا۔ میں جب تک ہسپتال میں رہا وہ روزانہ کی بنیاد پر وہاں آتے رہے۔ اور بعد ازاں انھوں نے معمول بنا لیا تھا کہ ہر اتوار کو گھر تشریف لاتے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ میرے علاج سے متعلقہ لوازمات اپنے ہمراہ لائیں اور ایسا ایک آدھ بار نہیں بلکہ بار بار ہوا۔ یہ سب ان کے مزاج کا وصفِ خاص تھا کہ انھیں دوستوں پر بے دریغ خرچ کرنے میں سرشاری ہوتی تھی۔ ایسی سرشاری جو کسی لوث اور تمنا کے بغیر تھی۔ اس کے علاوہ وہ اپنے کسی دوست کو مجھ سے ملاتے تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی۔ اسی دوران وہ جب بھی تیمار داری کے لیے گھر تشریف لاتے تو کبھی کبھار ان کا کوئی عزیز ترین دوست بھی ان کے ساتھ ہوتا۔ وہ رضی الدین رضی، عبدالعزیز بلوچ اور مستحسن خیال کو کئی بار اپنے ہمراہ لائے۔

وہ باقاعدگی سے ادبی تنظیموں بالخصوص سخن ور فورم کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوتے رہے اور اپنی تخلیقات پیش کیں۔ اسی فورم کے اہتمام سے رضی الدین رضی اور شاکر حسین شاکرنے ان کی کتاب "ماں اور مامتا" کی تقریب پذیرائی بھی منعقد کی تھی۔ رضی نے فورم کے اجلاسوں میں شریک ہونے والے اہل قلم کا تعارفیہ"سخن وارانِ ملتان" کے عنوان سے کتابی سلسلہ شروع کیا تو اس کی پہلی جلد میں بھی حبیب بٹالوی کے حوالے سے محبت سے لکھا۔ مزید برآں سخن فورم نے ان کے اعزاز میں ایک "شامِ سخن" کا اہتمام بھی کیا۔

حبیب بٹالوی نے مختلف تعلیمی بورڈذ میں ملازمت کی۔ پہلے پہل وہ لاہور بورڈ سے منسلک ہوئے، بعد ازاں ملتان بورڈ میں اہم عہدوں پر تعینات رہے۔ ایسی پوسٹوں کے لیے بعض لوبھ پسند "لُندھے" لوگ ہلکان ہوئے پھرتے ہیں۔ لیکن انھوں نے کبھی بھی یہاں سے "کسبِ فیض" نہیں کیا۔ جب دیکھا کہ ہر سمت بے طرح بدعنوانی عام ہوگئی ہے اور دیانت داری سے کام کرنا مشکل تر ہو رہا ہے تو قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر ملازمت کا طوق گلے سے اتار پھینکا۔ اس روز وہ بہت زیادہ ہشاش بشاش تھے۔ ایسے لوگ اب خال خال ہی ملتے ہیں۔ جو حقیقی معنوں میں رزقِ حلال کو عین عبادت سمجھتے ہوں۔

جاری۔۔

Check Also

Taleem Yafta Log Kamyab Kyun Nahi Hote?

By Javed Chaudhry