Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ilyas Kabeer
  4. Gardish Mein Hai Maani

Gardish Mein Hai Maani

گردش میں ہے معنی

کسی متن کے معنی بیان کرنے کے مختلف طریق ہیں۔ جسے کئی نام دیے گئے ہیں: شرح، تفسیر، تفہیم، تشریح، اظہار خیال۔ ان تمام جہتوں میں جو چیز یکساں ہے وہ ہے ترسیل و تفصیلِ معنی اور گردشِ معنی۔ ان میں سب سے مختلف "تعبیر" ہے۔ جس میں معنی کی مختلف جہتوں کو بیان کیا جاتا ہے، لیکن کہیں پر بھی حتمیت کا گمان نہیں ہوتا اور لامرکزیت قائم رہتی ہے تاکہ تکثیریت کا جواز قائم کیا جا سکے۔

تفصیلِ معنی کے مختلف وسائل کے حوالے سے شمس الرحمن فاروقی نے نہایت اہم بات کی ہے: "اگر ہم کہیں کہ "تعبیر" ابھی اردو میں عام نہیں ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے خیال میں شرح، تفسیر، تفہیم، تشریح، اظہار خیال سے وہ مقصد نہیں حاصل ہوتا جو "تعبیر" سے حاصل ہوتا ہے۔ ہم یہ فرض کر سکتے ہیں کہ یہ سب چیزیں ایک ہی ہیں اور ان کا مقصد کسی متن کے معنی بیان کرنا، اس کی وضاحت کرنا، اس کو واضح کرنا، اس کے مطالب کو کھول کھول کر کہنا ہے"۔

اورنگ زیب نیازی کی نئی کتاب "گردش میں ہے معنی" اسی تفصیلِ معنی اور گردشِ معنی کی ایک کوشش ہے۔ یہ کتاب اپنی نہاد میں مابعد جدید تنقید کی اطلاقی جہت یے۔ ڈاکٹر نیازی اس سے قبل تنقید کی نظری اور اطلاقی ہر دو جہتوں پر اپنا وقیع کام سامنے لا چکے ہیں۔ میری مراد ان کی دو اہم کتابیں"ماحولیاتی تنقید: نظریہ و عمل" (ترجمہ) اور "اردو ادب: ماحولیاتی تناظر" ہیں۔

ڈاکٹر نیازی کی زیر نظر کتاب میں تنقید کے اطلاقی پہلوؤں کو پیش نظر رکھا گیا ہے تاکہ اُن معترضین کو مُسکت جواب دیا جا سکے جو بے پر کی اڑاتے رہتے ہیں کہ اردو میں تنقیدی تھیوری کا اطلاق یکسر نہیں یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان سے بہت پہلے ناصر عباس نیر متعدد جگہوں پر تنقید کے اطلاقی پہلو اجاگر کر چکے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فی زمانہ تنقید ایک سماجی سرگرمی بن گئی ہے جو تخلیقی رنگ روپ بھی رکھتی ہے۔

"گردش میں معنی" کی ابتدا ایک ایسے موضوع سے ہو رہی ہے جسے وقوع پذیر ہوئے محض چند ہی برس کا عرصہ گزرا ہے۔ یعنی کرونا وبا۔ اس مضمون میں نیازی نے کورونائی عہد میں لکھے گئے اردو فکشن کا خصوصی مطالعہ کیا ہے۔ اس موضوع پر مواد کی جمع آوری انھیں تاریخی وباؤں اور ان کے نتیجے میں تخلیق کیے گئے مشرقی و مغربی ادب بالخصوص فکشنیاتی ادب کی سمت لے گئی۔ اس تناظر کو پیش نظر رکھ کر انھوں نے کورونائی فکشن کا غائر مطالعہ کیا ہے۔

کتاب کا ایک اہم مضمون "کون سی یلغار کے غلبے میں ہوں" کے عنوان سے قائم کیا گیا یے۔ اس مضمون کو نیازی نے ذیلی عنوان "اکیسویں صدی کی اردو نظم اور نئے استعماری بیانیے" دیا ہے۔ استبدادی مقتدرہ نے ہر عہد میں اپنی اجارہ داری قائم کی ہے۔ موجودہ صدی میں اس کی وضع قطع یکسر مختلف نظر آتی یے جسے دیگر زبانوں کے علاوہ اردو شعر و ادب میں بھی نشان زد کیا گیا۔ ڈاکٹر نیازی نے اردو نظم کی اس تخلیقی صورت گری کو مابعد نوآبادیاتی تنقیدی سانچے میں ڈھالا اور متعدد نظمیہ متون کا جائزہ لیا۔

نیازی نے ایک مضمون میں اپنے مرشد اور عہد حاضر میں اردو تنقید کو بہ یک وقت مقبولیت اور قبولیت عطا کرنے والے ناصر عباس نیر کے تنقیدی افلاک کی سیر کی ہے جسے پڑھ کر یقین ہوتا ہے کہ اس صاحبِ اسلوب نقاد نے خاصا وقیع کام کر رکھا ہے۔

معنی کی گردش دیگر اہم مضامین "شاملِ شورِ جہاں اک نحیف آواز (مجید امجد اور نظام زر)"، "میرا جی کی غزل: ایک نئے لسانی پیرائے کی تلاش"، "مجید امجد کی نظم "کنواں" رد تشکیلی مطالعہ" اور "میرا جی کی نظم "سنجوگ" کا ساختیاتی مطالعہ" میں بھی دکھائی دیتی ہے۔

ڈاکٹر نیازی کی یہ کتاب اپنے موضوع و مواد و اسلوب کی بدولت کسی حد تک جدید اردو تنقید کا نیا درشن ہے۔ اب نیازی کے قارئین ان سے مزید یک موضوعی کتابوں کے متقاضی ہیں۔

Check Also

Kya Sinfi Tanaza Rafa Hoga?

By Mojahid Mirza