Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Wajdan Ki Dastan

Wajdan Ki Dastan

وجدان کی داستان

عام طور پر قَسم ایسے نہایت اہم معاملات پرہی اٹھائی جاتی ہے، جہاں مخاطبین کو معاملہ کی درستی یا اہمیت کا یقین دلانا مقصود ہو۔ اور اگر کوئی بہت بڑی اور معتبر ہستی کسی معاملہ پر قَسم اٹھائے تو یقینی طور پر معاملہ بہت ہی اہمیت کا حامل رہا ہوگا۔ اور اگر خالق کائنات ہی قَسم اٹھا لیں اور وہ بھی گیارہ چیزوں کی تو ہمیں بالکل بھی شک نہیں ہونا چاہیے کہ معاملہ ہم انسانوں کے لیے کس قدر اہم اور قابل توجہ ہوگا۔

سورہ شمس میں میرے مختصر علم کے مطابق خالق کائنات نے قرآن کریم میں سب سے زیادہ گیارہ قسمیں کھا کرجو بات بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ

فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾

پھر اسے الہام کیا کہ (اس کے لیے) بدی کیا ہے اور پرہیزگاری کیا ہے۔

گویا ہر شخص کے اندر چاہے وہ مسلمان ہے یا نہیں، ایک ایسا نظام رکھ دیا گیا ہے جو اسے آگاہ کرتا ہے کہ وہ جو کام کررہا ہے وہ نیکی ہے یا بدی ہے، اچھائی ہے یا برائی ہے۔ ہم اس نظام کو عرف عام میں ضمیر کہتے ہیں۔ ہمارا روزانہ کا تجربہ ہے کہ ہم سے اگر کوئی ایسا امر سرزد ہوجاتا ہے جسے ہم اچھا خیال نہیں کرتے تو ہمارے اندر انتہائی مایوسی اور افسوس کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔

اسی طرح ہم اگر کوئی بھلائی یا خیر کا کام کرتے ہیں تو ہمارے اندر ایک سکون اور سرشاری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ سب اسی ضمیر کے اس غیر مرئی نظام کے تحت ہوتا ہے۔

لیکن اس ضمیر کے نظام میں پنہاں ایک ایسا اصول ہے جس سے واقفیت ازحد ضروری ہے۔ اور وہ اصول یہ ہے کہ کسی بھی ایک برائی پر ضمیر کا احتجاج یا ملامت بتدریج کم ہوتے ہوتے ختم ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص پہلی بار سگریٹ پیتا ہے تو اسے بے حد افسوس ہوگا۔ تادیر سوچتا رہے گا کہ کاش میں نے یہ فعل ناپسندیدہ نہ کیا ہوتا۔ دل میں عہد بھی کرے گا کہ آئندہ نہیں کروں گا۔

لیکن اگر چند روز بعد اسے دوبارہ موقع ملے اور وہ پھر بھی سگریٹ پی لیتا ہے۔ تو اس بار ملامت اور افسوس قدرے کم ہوگا اور اس کا دورانیہ بھی کم ہوگا۔ تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ متعدد بار ایک ہی گناہ کرنے پر ضمیر اس گناہ پر ملامت کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ یہ وہی کیفیت ہے جسے ہم مردہ ضمیر کہتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ۔ ضمیر کی یہ کیفیت صرف اور صرف اس ایک برائی پر ہے۔

اگر وہی شخص کوئی مختلف غلطی یا گناہ کرتا ہے تو اس کا ضمیر اسی شدت سے دوبارہ اس پر احتجاج اور ملامت کرے گا۔ مثال کے طور پر اگر وہی شخص جو سگریٹ کا عادی ہوچکا ہے پہلی بار نشہ آور سگریٹ پیے گا تو اسے اسی شدومد سے ملامت اور افسوس کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا سامنا پہلی بار سگریٹ پینے پر کرنا پڑا تھا۔

اب رہا سوال کہ کسی برائی کے عادی شخص کا ضمیر بحال کیسے ہو۔ تو اس کا جواب ہے۔۔۔ توبہ۔

جب ہم پورے خلوص اور صدق دل کے ساتھ کسی برائی یا گناہ سے توبہ کرتے ہیں اور آئندہ کے لیے پختہ عہد کرتے ہیں کہ یہ گناہ دوبارہ نہ کریں گے تو اس نظام ضمیر کی تجدید ہوجاتی ہے۔ توبہ کے بعد اگر کسی وقت کمزور لمحات میں تقاضہ بشریت کے تحت وہی گناہ پھر سے سرزد ہوجائے کہ جس کے کبھی ہم عادی رہے ہوں تو ضمیربالکل پہلے کی طرح بہت ہی شدت اور قوت کے ساتھ ملامت و احتجاج کرتا ہے۔

ہمارا تجربہ ہے کہ یہ ضمیر کا نظام اس قدر جاندار اور شاندار ہے کہ اگر انسان کو کسی مشتبہ بات کے لئے کسی بیرونی مفتی سے فتوی لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ بہت سے توکل والے اللہ کے بندے رشوت طلب کیے جانے پر مختلف سرکاری محکموں سے کاروبار ترک کردیئے ہیں مگر رشوت دے کر مال بیچنا یا بل وغیرہ لینا گناہ سمجھتے ہیں۔

ہمارے ایسے ہی ایک جاننے والے سے ان کے سیلز مینیجر نے کہا کہ سر جب ہرسرکاری محکمہ میں سو فیصد کام رشوت لینے پر ہی دیا جاتا ہے تو ایسے میں بہت سے مفتیان کا فتاوی ہیں کہ اس میں برائی نہیں۔ آپ میرے ساتھ چلیں میں آپ کو فتوی لے دیتا ہوں۔ انہوں نے جواب دیا بھائی جو مفتی اندر بیٹھا ہے جب وہ اجازت دے گا تو ہی کسی باہر والے مفتی سے پوچھنے جاؤں گا نا۔ ابھی تو اس نے ہی ویٹو کررکھا ہے۔

آخری بات کہ انسانی نظام ضمیر کو نماز سے بہت زیادہ تقویت ملتی۔ جتنا کوئی شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے، محبت اور خشوع سے نماز پڑھتا ہے اتنا ہی اس کےلیے چھوٹی سے چھوٹی بدی کی تشخیص آسان ہوتی ہے۔ اتناہی اس کا ضمیر توانا ہوتا ہے زیادہ شدت سے برائی کی مزاحمت کرتا ہے، زیادہ مشکل سے مردہ ہوتا ہے۔ اور انتہائی آسانی سے اس کی تجدید ہوجاتی ہے۔

Check Also

Amjad Siddique

By Rauf Klasra