Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. To Chalein Turkey (7)

To Chalein Turkey (7)

تو چلیں ترکی؟ (7)

انہی حفظانِ صحت کے اصولوں کی وجہ سے ہی شاید ترک کھانے کے ساتھ کولا کی جگہ لسی کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ سب لوگ ہی لسی پیتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ لسی اور کولا کا تناسب آدھا آدھا ہوگا۔ لسی بہت گاڑھی نمکین ہوتی ہے۔ جسے آئرن Ayran کہتے ہیں۔ اور بالکل جوس اور کولاز کی طرح بوتلوں میں نمائشی فریزرز میں نمائش کی گئی ہوتی ہے۔

امارات اور سعودی عرب میں دستیاب لبن اور آئرن میں بس انیس بیس کا ہی فرق ہوتا ہے اور وہ یہ کہ آئرن تھوڑی سی کم گاڑھی اور ہلکی سے کھٹی ہوتی ہے۔ ہم نے تان تونی کے ریستوران پر پہلی بار آئرن دیکھی تو دل میں اشتیاق پیدا ہوا کہ اس کا ذائقہ چکھا جائے۔ سو یہی منگوائی۔ بہت زبردست لگی۔ پھر جتنے روز ہم ترکی میں رہے ہر کھانے کے ساتھ بس آئرن ہی چلی۔

رات کا کھانا کھانے کے بعد تینوں دوستوں سے کل کے دن کے متعلق ہدایات لیں۔ صنعتی نمائش چونکہ ایک روز بعد شروع ہونا تھی تو ہم نے ایک دن استنبول کی سیر کرنے کا پروگرام بنایا۔ چونکہ ہماری آمد، اویا اور نعیم صاحب کے لیے تو بالکل غیر متوقع ہی تھی۔ اس لیے انہوں نے اپنے کام پہلے سے شیڈول کر رکھے تھے۔ لہذا ایک دن ہمیں اکیلے ہی گھومنا تھا۔

تینوں راہنماؤں کا متفقہ فیصلہ تھا کہ ہمیں سب سے پہلے تکسیم سکوائر اور اس کے گردونواح کا علاقہ دیکھنا چاہیے۔ ایک تو جو میٹرو بس اس رہائش گاہ کے قریب سے گذرتی تھی، تکسیم سکوائر اسی بس کے روٹ کے قریب تھا۔ مطلب بسوں کی تلاش اور تبدیلی کا تردد نہیں کرنا پڑتا۔ دوسرا کل جس صنعتی نمائش کے لیے ہمیں جانا تھا اس کے لیے شٹل بس تکسیم سکوائر سے چلنا تھی۔

ہم پہلے سے شناسا ہوجاتے۔ تیسرا یہ کہ تکسیم سکوائر کے قریب ہی استنبول کا سب سے مشہور اور پررونق بازار استقلال بازار ہے۔ جسے دیکھنا بجائے خود کسی ایڈونچر سے کم نہیں۔ سو ہم نے کل کے لیے تکسیم سکوائر کو ہی 'لاک' کر دیا۔ صبح ہم کچھ دیر سے بیدار ہوئے۔ حسنین اور اویا جاچکے تھے۔ جبکہ نعیم صاحب باورچی خانے میں ناشتہ بنا رہے تھے۔

ہمارے آنے پر انہوں باوجود انتہائی اصرار وتکرار کے ہمارے لیے بھی ناشتہ بنایا۔ یہاں ہم یہ بات ضرور کہیں گے سفر چاہے چھوٹا ہو یا بڑا قریب کا ہو یا دور کا انسان کچھ نیا سیکھتا ضرور ہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ سفر وسیلہ ظفر۔ تو اگر پا ظفر سے ملاقات نہ بھی ہو، سفر وسیلہ پا جمیبل یا وسیلہ پا بشیر پھر بھی ہوتا ہے۔ ہم نے آج دیکھیں صبح صبح استنبول میں بیٹھے آسٹریلیا کے شہری سے چائے کی پتی کو سنک میں جانے سے روکنے کا طریقہ سیکھ لیا۔

انہوں نے کیا کیا، چائے کے خالی برتن میں تھوڑا سا پانی ڈالا، اس کو اچھی طرح ہلایا اور پونی میں ڈال کر ساری پتی پونی میں جمع کر لی۔ یوں پتی ساری گئی کچرے کی تھیلی میں اور نتھرا پانی گیا سنک میں۔ اگر آپ کو سیکھنے کا شوق ہے، تو آپ جانتے ہوں گے کہ سیکھنے کی بھی ایک سرشاری ہوتی ہے۔ جو ہر سیکھ کے بعد بندہ محسوس کرتا ہے۔ ہمیں تو مگر آج دو طرح کی 'سرشاریاں ' تھیں۔

ایک کچھ نیا سیکھنے کی اور دوسرا استنبول دیکھنے کی۔ سو ہم تیار ہو کر کشاں کشاں جنت محلہ کے میٹرو بس سٹاپ کی جانب چلے۔ بس میں سوار ہونے کے بعد سب سے پہلی چیز یہ پتہ چلی کہ اس بس میں " مستوارت کے لیے" علیحدہ خانہ ہی نہیں۔ شاید اس کی وجہ یہی تھی کہ سارے شہر میں ایک بھی موئنث مستور نہ تھی۔ بلکہ خواتین وہاں مصروف تھیں، مسرور تھیں، مغرور تھیں، مہجور تھیں۔

شاید کچھ مجبور اور مقروض بھی ہوں لیکن مستور ایک بھی نہیں تھی سب کی سب مظہور، اور مظہور بھی ایسی کہ، تیری ہر تان ہے دیپک، بلکہ دیپیکا۔ گویا فطرت ِفیاض نے انہیں جتنا بھی حسن و توازن اور رعنائی عطاء کی تھی انہوں اس کی زیبائش ونمائش میں قطعا کسی تجاہل و تساہل سے کام نہیں لیا تھا بلکہ اسے چمکا سجا اور بڑھا چڑھا کر ہمراہ کرلیا تھا۔

بس نفوس سے کچھا کھچ بھری ہے، لیکن کسی مردوزن، محرم ونا محرم کسی اپنے پرائے کی کوئی تفریق نہیں۔ بس رکنے پر آپ کو کسی مہوش نے دھکا دیا ہے۔ آپ نے وہی دھکا آگے کسی فربہ پرش کو منتقل کر دیا ہے۔ یا بصورت دیگر۔ کوئی مسئلہ نہیں۔ نہ کسی مہوش کو دھکا دینے پر ملال ہے نہ کسی پرش کو دھکا کھانے پر اعتراض۔ سب کچھ خلط ملط ہے۔ اور یقیناً غلط ملط بھی۔

اسی دھکم دھکی میں ہم بھی تکسیم سکوائر کے سٹاپ پر پہنچ گئے۔ سٹاپ سے اتر کر سڑک کے ساتھ لگے راہنمائی کے نشانات سے بندہ آسانی سے سکوائر پہنچ جاتا ہے۔ تکسیم سکوائر ایک کھلا سا میدان ہے۔ جس کے وسط میں انگریزوں سے لڑائی کی ایک یادگار نصب ہے۔ اس کے اطراف میں سیمنٹ کی ٹائلوں سے قطعات اور گھاس کے میدان ہیں۔ ایک بڑی سی ترکی طرز تعمیر سے بنی مسجد ہے۔

تکسیم کے اطراف میں بہت سے ہوٹل ہیں۔ بازار ہیں سرکاری اور نجی عمارات ہیں اور کئی اطراف جانے کے راستے ہیں۔ پارکنگ کی جگہیں اور عوام کے استعمال کی اور ضرورت کی دیگر عمارات تکسیم کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ میں یہاں ایک پانی کا بڑا سا تالاب بنایا گیا تھا۔ جس میں ایک چھوٹی سی نہر کے ذریعہ سے پانی جمع کیا جاتا۔ یہاں اس تالاب سے پھر استنبول شہر کے مختلف علاقوں کو پانی تقسیم ہوتا تھا۔

اس لیے اس جگہ کا نام تقسیم پڑ گیا۔ جب ترکوں نے اپنا رسم الخط تبدیل کیا اور انگریزی طرز اپنایا تب انہوں نے انگریزی حرف کیو Q کو نکال دیا۔ مجبوراً۔ 'ک' اور 'ق' سے شروع ہونے والے سارے حروف اب 'K' سے ہی لکھے جاتے ہیں۔ سو تقسیم کو بھی Takseem لکھا جانے لگا۔ اب ہم جب Takseem کو اردو کا پیراہن اوڑھاتے ہیں تو وہ تکسیم بن جاتا ہے۔ حالانکہ یہ اصل میں تقسیم ہی ہے۔

(جاری ہے)

Check Also

Bushra Bibi Aur Ali Amin Gandapur Ki Mushkilat

By Nusrat Javed