Shukr Nashukri
شکر ناشکری
دوسال قبل آج کے دن یعنی چھ ذوالحج ہم عزیزیہ پاکستانی حج عمارت نمبر 303 میں مقیم ہیں۔ اس عمارت میں کل دوسو بہتر عازمین ہیں۔ کل یعنی سات ذوالحج نصف شب ہمیں منیٰ کیلئے روانہ ہونا ہے۔ منیٰ میں جس جگہ ہمیں مکتب ملا ہے وہ جگہ ریلوے اسٹیشن کے قریب ہے۔ سعودی انتظامیہ کے مطابق ایسے تمام عازمین حج کہ جن کے مکتب ریل کے قریب ہوں ان کی حج عبادات یعنی، عرفات، مزدلفہ اور کنکریوں کیلئے ساری آمدورفت ریل کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔ اس مقصد کیلئے وہ ایک سم کارڈ والی عارضی گھڑی تمام عازمین کو دیتے ہیں جس کو دکھا کر ریلوے حدود میں داخلہ ممکن ہوتا ہے۔
یہ گھڑی نما ٹکٹ دینے کیلئے ریلوے کا ایک مجاز افسر عمارت میں آتا ہے اور سب عازمین کو دوسو بہتر ٹکٹ دے کر چلا جاتا ہے۔ جو لوگ حرم پاک میں ہیں ان کی ٹکٹس ان کے ہم کمرہ کو دے دی گئی ہیں۔ ہم عشاء کے بعد لوٹتے ہیں تو علم ہوتا ہے کہ دوپہر کو ریل ٹکٹ مل گئے ہیں۔ ہم اپنے ٹکٹ کے لیے عمارت کے مینیجر سے رابطہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں آپ کے کمرے والوں کو دے دی گئی ہیں۔ کمرے والے کہتے ہیں ہم نے کوئی ٹکٹ فالتو نہیں لی۔ سب سے پوچھا کسی کے پاس فالتو ٹکٹ نہیں۔
مینیجر سے کہا بھائی آپ کی ذمہ داری تھی آپ نے سب کیلئے ٹکٹ لینا تھا ہمارا کیا قصور۔ مگر انہوں نے صاف منع کر دیا کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ ایک مسئلہ بن گیا۔ ہم متفکر بلکہ پریشان ہوگئے۔ ان سعودیوں کے رویے تو ویسے ہی معاندانہ ہیں۔ ہمارے ساتھ پانچ خواتین ہیں۔ وہ ہمارے بنا نہیں جاسکتیں ہم ان سے جدا نہیں ہوسکتے۔ دیار غیر، اجنبی لوگ، زبان سے نابلد کریں تو کیا، کہیں تو کسے۔ اب ہوگا کیا؟
ابھی سوچنا شروع بھی نہیں کیا تھا کہ آگئے صاحب۔ آتے ہی شروع ہوگئے۔ دیکھی ہی اپنی قسمت ہونہہ۔ دوسو بہتر میں صرف ایک تم ہو جس کو نہیں ملی۔ اف۔ صرف یہاں کی چھوڑو تمہارے ساتھ تو ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ یہی تمہاری حیثیت ہے اسکی نظر میں جس کیلئے یہاں تک کچھے چلے آئے۔ اب تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا۔ پتہ نہیں حج بھی کرپاؤ گے کہ نہیں۔ لگتا تو یہی ہے کہ نہیں کرپاؤ گے۔ یہاں کوئی کسی کی نہیں سنتا۔ اب ایک ہی صورت ہے اٹھو اور اس منیجر کا منہ توڑ دو، کہو بس تمہارا ہی قصور ہے۔ گریبان پکڑلو اس کا، نہیں تو رہ جاؤ گے۔
ابھی ذہن نے ان باتوں کا تجزیہ کرنا شروع ہی کیا تھا کہ یاد آگیا کہ حدود حرم میں ہوں۔ کیا اول فول سوچ رہا ہوں۔ جی میں کہیں سے خیال آیا کہ جس کیلئے آئے ہو اس کو عرضداشت پیش کرو، اس کا توکل کرو جو یہاں تک لایا ہے آگے بھی لیجائے گا۔ کچھ آسرا ہوا۔ استاد محترم نے کہا تھا وہاں کوئی بھی حاجت ہوئی نفل پڑھ کر عرضی پیش کرنا۔ عمارت کے تہ خانہ میں مسجد تھی۔ دو نفل، نیت کیے۔ ابھی رکوع میں ہی تھے کہ رابطہ ہوگیا۔
کہا، دیکھو کل دوسو بہتر میں ایک تمہیں اتنی صلاحیتوں سے نوازا گیا تھا کہ اس چھوٹے سے امتحان کا بوجھ سہار سکو، سو قرعہ بھی تو تمہارے نام ہی نکلنا تھا۔ اپنے آپ کو دیکھو، اپنی تعلیم دیکھو، اپنا آدھی دنیا گھومنے کا تجربہ دیکھو، بطور فیکٹری مالک اپنا سینکڑوں لوگوں سے بیک وقت کام لینے کا ماضی دیکھو، اپنے رفقا دیکھو اپنے تعلقات دیکھو، اپنی زباندانی، اپنی ابلاغ کی قدرت دیکھو اپنا اعتماد دیکھو، تمہیں ہوا کیا ہے؟ کس بات پر ناشکری پر آمادہ ہوتے ہو۔
بہت ندامت ہوئی۔ آنکھوں سے سیل رواں جاری ہوگیا۔ سچ ہے، جو مقام شکر ہے ہم اس پر شکوہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اور اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہی یہ ہے۔ ادھر انسان ناشکرا ہو ادھر اس کا ہدف مکمل۔ اللہ کریم کو شکر سب سے زیادہ پسند ہے تو ظاہر ہے ناشکری سب سے ناپسندیدہ ہوگی۔ آن کی آن میں ساری عنایات اور سارے کرم کو بھول کر ایک حاجت پر یہ کہنا شروع کردینا کہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا، بہت بڑی ناشکری ہے۔ مسجد سے باہر نکلا اعتماد آسمان پر۔ مینیجر کے کاونٹر پر لگے شکایات کے نمبر ابھی ڈائل کرنا شروع ہی کیا تھا کہ۔ مینیجر نے ہاتھ تھام لیا۔ رکو کچھ کرتا ہوں۔ آدھ گھنٹہ بعد گھڑی ہماری کلائی پر تھی۔ مگر ہم امتحان میں فیل ہوچکے تھے۔