Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Rang Barangi Kapas

Rang Barangi Kapas

رنگ برنگی کپاس

جاپان کے مغربی ساحلی شہر میناماتا میں سال 1956 میں ایک عجیب وغریب بیماری پھوٹ پڑی۔ کچھ ساحلی گھرانوں کے افراد کی ہاتھوں اور پاؤں کی ہڈیاں مڑ گئیں ان کے عضلات میں کھچاؤ پیدا ہوگیا، ان کی بصارت، سماعت اور یادداشت بتدریج کم ہوگئی۔ یہاں تک کہ دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ تمام معلوم بیماریوں کے ٹسٹ منفی آنے پر حکام نے 'کوماموتو یونیورسٹی' کے محققین کو اس نئی بیماری کا کھوج لگانے کی ذمہ داری سونپ دی۔

سال بھر کی جدوجہد کے بعد عقدہ کھلا کہ علاقے میں موجود 'چیسو' نامی ایک بہت بڑے کیمیکل کے کارخانے سے بڑے پیمانے پر پارے کے مرکبات فیکٹری سے نکلنے والے پانی میں شامل ہوتے ہیں۔ جو وہاں سے قریبی سمندر میں جارہے ہیں۔ یہ پارے کے مرکبات اس علاقے کی مچھلیوں کے گوشت میں جمع ہوجاتے ہیں۔ جب اس علاقے کے باسی سمندر سے پارے سے آلودہ مچھلیاں پکڑ کر کھاتے ہیں تو ان میں یہ خطرناک بیماری پیدا ہوجاتی ہے۔

اس تحقیق نے سائنسدانوں بطور خاص کیمیاء دانوں کے سوچنے کے انداز میں بڑی تبدیلی کردی۔ کیونکہ اس وقت تک پارے کےمرکبات دنیا بھر میں زراعت کے میدان میں مستعمل تھے۔ انکا استعمال بطور خاص بیجوں کو پھپھوندی اور جراثیم سے محفوظ رکھنے کیلئے یا کیڑے مار ادویات کے طور پر سپرے کے طور پرکیا جاتا تھا۔ جسے یکلخت ممنوع کرنا پڑا۔

سال 1948 میں ایک سوئس کیمیاء دان پال ہرمین ملر کو نوبل انعام دیا گیا۔ کہ اس نے ڈائی کلورو ڈائی فینائل ٹرائی کلورو ایتھیلین نامی ایک کیمیائی مرکب ایجاد کیا جسے دنیاحرف عام میں ڈی ڈی ٹی کےنام سے جانتی ہے۔ مگر صرف بارہ سال بعد ہی مختلف تحقیقات سے پتہ چلا کہ اس کے استعمال سے کینسر ہوسکتا ہے۔ اسی طرح سیسہ، نکل، کرومیم اور دیگر دھاتوں کے مرکبات جن کا کسی نہ کسی شعبہ میں استعمال تھا رفتہ رفتہ انسانی صحت کیلئے مضر صحت ثابت ہوکر ممنوع قرار پاتے رہے۔

جیسے جیسے علم بڑھتا رہا چمڑہ رنگنے والے گرین سالٹ سے لے کر سنو کریموں میں موجود پوٹاشیم سٹیریٹ تک کے مضر اثرات آشکار ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ آج کل سب سے زیادہ تحقیق اس بات پر ہوتی ہے کہ انسانوں کیلئے کم سے کم نقصان دہ کیمیائی مرکبات تلاش یا ایجاد کیے جائیں۔

لیکن نت نئے کیمیائی مرکبات کی ایجادات اور پھر چند سال بعد ان کے ممنوع قرار پانے کی اس ساری مشق سے زیرک لوگوں نے یہ جان لیا ہے کہ ابھی ہمارا سارا سائنسی علم اس سطح پر نہیں کہ ہم اس پر اعتماد کرتے ہوئے ہر نئی آنے والی شے کا بے دھڑک استعمال شروع کردیں۔ سو آسودہ حال لوگوں نے آرگینک اشیاء کا استعمال شروع کردیا۔ اس کیلئے باقاعدہ نظام وضع کیا گیا، قوانین بنائے گئے اور اب ہر قسم کے کیمیائی مرکبات سے پاک آرگینک اشیاء کے استعمال کا چلن دنیا بھر میں روز بروز بڑھ رہا ہے۔

کھانے پینے کی اشیاء کی حد تک تو آرگینک فوڈ نے کسی قدر یہ مسئلہ حل کردیا لیکن کپڑے جوتے اور سویٹر وغیرہ اور دیگر انسانی استعمال کی اشیاء کی تیاری میں تو بہرحال کیمیائی استعمال کسی نہ کسی درجہ پر لازمی ہیں بطور خاص رنگ۔ ان کے ماحول اور انسانوں پر بالواسطہ اور بلا واسطہ اثرات سے کیسے بچا جائے۔؟ اس کا حل اہل علم نے یہ نکالا کہ کپاس اور اون کو قدرتی طور پر ہی رنگین پیدا کرلیا جائے۔

قدرتی طور پر رنگین کپاس کی تیاری کے سلسلہ میں بھارت میں بہت زیادہ کام ہوا ہے اور ہورہا ہے۔ بھارت میں اس وقت چالیس مختلف رنگوں کی قدرتی کپاس اگائی جارہی ہے۔ جس میں سرخ، بھورے، سبز اور سرمئی رنگوں کے مختلف شیڈز شامل ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک رنگین کپاس فی ایکڑ پیداوار سفید کپاس کی نسبت آدھی ہوا کرتی تھی۔ مگر دس سال کی مسلسل تحقیق کے بعد پانچ قدرتی رنگوں میں ایسا بیج بنا لیا گیا ہے جس سے فی ایکڑ پیداوار سفید کپاس کے برابر ہے یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ دوسری طرف قدرتی رنگین کپاس کی قیمت فروخت عام کپاس کی نسبت چار سے چھ گنا تک زیادہ ہوتی ہے۔ گویا فی ایکڑ کم از کم دگنا منافع یا اس سے بھی زیادہ۔

ہمارے زرعی تحقیقاتی اداروں کو بھی اس پر کام کرنا چاہیے۔ اور جلد سے جلد مقامی موسم سے مطابقت رکھنے والی قدرتی رنگین کپاس کی اقسام متعارف کروانا چاہئیں۔ تاکہ ہمارے کسان بھی مستقبل کے ایک اہم کاروبار میں سے اپنا حصہ وصول کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari