Pehli Kamai
پہلی کمائی
سال انیس سو تراسی کا موسم گرما۔ سکول میں آٹھویں جماعت کی چھٹیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہم اور ایک دوست سائیکل پر جہان موجود کی تسخیر کے لیے نکلے ہیں۔ دوران سفر ایک جگہ رنگین مچھلیوں کی دکان نظر آئی۔ رک کر دکان کا مفصل جائزہ لیا گیا۔ مچھلیاں دل کو بھا گئیں۔ قیمتیں معلوم کیں تو جانا کہ سب سے بیش قیمت چیز ایکوریم یعنی مچھلیوں کا شیشے کا گھر ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے ایکوریم کی قیمت پانچ سو روپے اور پھر دیگر لوازمات۔
ایک روپیہ روزانہ جیب خرچ والے نوجوانوں کے لئے معاملہ قوت خرید سے باہر تھا۔ معمول کی آوارگی کے بعد واپس تو آ گئے مگر دل کہیں رنگین مچھلیوں میں ہی اٹک گیا۔ اگلے روز پھر گئے اور ایکوریم کی بناوٹ کے متعلق تمام دستیاب معلومات جمع کیں۔ اتفاق سے ایک ہم جماعت کے والد محترم کی شیشے کی دکان تھی۔ ان کے پاس پہنچے، ان سے بھی کچھ معلومات ملیں۔ جی میں ٹھان لی کہ ایکوریم خود بنایا جائے گا، مگر کیسے کچھ پتہ نہیں؟
نہ کوئی گوگل اور نہ یو ٹیوب اور نہ ہی کسی طرح کی دیگر راہنمائی مہیا تھی۔ تاہم غور و غوص جاری رکھا اور چند روز بعد اس قدر اعتماد تھا کہ ہم بنا سکتے ہیں۔ گھر میں کھڑکی کا ایک سبز رنگ کا پھولدار شیشہ جانے کب سے ٹوٹا ایک کونے میں پڑا تھا۔ اس ٹوٹے شیشے کو دوست کے والد کی دکان پر لے جایا گیا اور ایک چھوٹے تجرباتی چھ انچ سائز کے ایکوریم کے لیے شیشے کٹوا لیے۔ صرف ایک سامنے کا شیشہ وہاں سے سادہ لیا تاکہ سامنے سے مچھلیاں نظر آ سکیں۔
اس دور میں ایرلڈائیٹ کے نام سے سیبا گائیکی جرمنی کی ایک ایپوکسی گلیو ملا کرتی تھی۔ اس کے دونوں حصوں کو ملا کر ایکوریم بنانے کے تجربات شروع ہوئے۔ زیادہ مسئلہ نہیں ہوا۔ چند گھنٹوں کی محنت سے چھوٹا تجرباتی ایکوریم بنا لیا گیا۔ اسی کی دہائی میں چپس اور سیمنٹ سے بنی ہوئی ریک نما الماریاں زیبائش کی غرض سے مختلف کمروں میں رکھی جاتی تھیں۔ ہماری بیٹھک میں بھی ایک تھی۔
اس پر ایکوریم کا بچہ سجا کر اس میں ایک دو جوڑے انتہائی خوبصورت رنگین مچھلیوں کے ڈال دیے گئے۔ محلہ کے بچوں کے لیے یہ بالکل نئی چیز تھی۔ دیکھنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ بہت سے بچوں نے قیمت دریافت کی۔ لیکن ایک بچہ اپنی اماں کو لے کر آ گیا۔ ہم نے پانچ سو والے ایکوریم کے تین سو بتائے شاید وہ پہلے سے معلومات رکھتے تھے فوراََ معاملہ طے پا گیا۔
دو سو روپے ایڈوانس لے کر ہم شیشے والی دکان پر پہنچے۔ دو فٹ لمبائی اور پندرہ انچ اونچائی کے ایکوریم کے تمام شیشے ڈھائی ضرب چار کی شیٹ میں سے نکل آئے۔ ستر روپے کا شیشہ اور دس روپے مزدوری کے ملا کر اسی روپے انکل کو دیے اور اسی روپے کی ہی سیلیکان ٹیوب خریدی جو آدھی خرچ ہوئی۔ ایک دن کی دلچسپ بلکہ مہم جویانہ مشقت کے بعد ایکوریم تیار تھا۔
پہلے ایکوریم پر ایک سو بیس نقد اور چالیس روپے کی سیلکان بچی تھی۔ ذاتی پہلی کمائی سے ہم نے دس روپے ایک زبردست بڑے حجم کا تربوز خرید کر ماں جی کی خدمت میں پیش کیا تو ان کی آنکھوں کی چمک دیدنی تھی۔ مگر اس معاشی سرگرمی کے ساتھ پڑھائی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ آٹھویں میں وظیفہ لیا اور دسویں جماعت میں پورے سکول میں پہلی پوزیشن تھی۔
چھٹیوں میں درجن بھر ایکوریم بنائے ہوں گے۔ چھٹیاں ختم ہوئیں تو ہمارے پاس گھڑی والا پن، پلاسٹک کا امتحانی گتا، مقناطیس والا جیومیٹری بکس اور ایسی کئی اشیاء تھیں۔ کر گزرنے کا اعتماد الگ تھا اور کمائی کا اعتماد الگ۔ پھر نویں جماعت سے بچوں کو پڑھانا شروع کیا۔ ایف ایس کے دوران وقفہ رہا اور انجینئرنگ کے دوران پھر سے ٹیوشن پڑھانا شروع کی۔ یونیورسٹی کی صرف پہلی فیس والد گرامی سے لی تھی اور آخری۔
معاشی خود مختاری کی وجہ سے نہ صرف پانچ سال کلاس کے سب سے آسودہ حال طالب علم رہے بلکہ اس دوران کثیر سرمایہ کی لاگت سے گھر میں موجود ایک کمرے میں مکمل لیبارٹری بھی بنا لی تھی۔ جو آج تک الحمدُ للہ بہت سے اضافہ کے ساتھ ہماری فیکٹری میں ہمارے پاس ہے۔ صرف یہی نہیں جب انجینئرنگ سے فارغ ہوئے تو انجینئرنگ سے متعلقہ کم و بیش تین سو کتابوں پر مشتمل ایک چھوٹی لائبریری بھی تھی۔
حاصل گفتگو یہ کہ بچوں کو آٹھویں جماعت سے عملی طور پر ایسے کاموں میں مصروف کرنا چاہیے جن سے ان میں کمائی کا شوق اور اعتماد پیدا ہو۔ اس سلسلے میں ہم تعلیم سے متعلقہ مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر کچھ کام بھی کر رہے ہیں۔ انشاءاللہ امید ہے کہ جلد ہائی سکول کے بچوں کو باقاعدہ انٹرپینورز بنانے کے عملی اسباق کا تجربہ ہو گا۔
اسی بات کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے بھائی Usman Tufail نے اپنے مجوزہ بچوں کے سمر کیمپ میں ایک تجارتی سرگرمی بھی رکھی ہے۔ بچے اس سے سیکھنے کی حظ تو اٹھائیں گے ہی عین ممکن ہے کہ کچھ بچے سکول کھلنے سے پہلے ہماری طرح اپنی پہلی کمائی سے بھی لطف اندوز ہو چکے ہوں۔