Pehla Qadam
پہلا قدم
ہماری ملکی صنعت کہاں کھڑی ہے جائزہ لیتے ہیں۔ وطن عزیز میں گاڑیاں بنتی ہیں۔ ان گاڑیوں کے چیسس انجن، گئیرز اور بریک اسمبلیز باہر سے آتی ہیں۔ چادری لوہے، پلاسٹک اور ربر کے پرزے یہاں بنتے ہیں۔ چادری پرزوں کے لیے لوہے کی چادر اور ڈائیاں باہر سے آتی ہیں، درآمد شدہ پریسوں پر اس لوہے کی چادر کو ان درآمد شدہ ڈائیوں میں رکھ کر مطلوبہ شکل دے دی جاتی ہے۔ پھر اسے درآمد شدہ کیمیائی مرکبات سے بنے فاسفیٹ کے محلول میں ڈال کر فاسفیٹ کیا جاتا ہے۔
ان پرزہ جات کی جانچ درآمد شدہ مشینوں اور اوزاروں سے کر کے، درآمد شدہ پلاسٹک سے درآمدی مشینری پر بنی پیکنگ میں لپیٹ کر کمپنی کو بھیج دیا جاتا ہے۔ اسی طرح پلاسٹک اور ربر کے مولڈ بھی درآمد کیے جاتے ہیں۔ جنہیں درآمد شدہ انجیکشن مولڈنگ مشینوں پر لگا کر درآمد شدہ پلاسٹک اور ربر سے بھر دیا جاتا ہے۔ اس سارے عمل کے دوران جو بجلی استعمال ہوتی ہے وہ بھی بیشتر اوقات درآمدی کوئلہ یا فرنس آئل سے درآمد شدہ پلانٹس پر بنی ہوتی ہے۔
یہاں تک کہ مولڈز کے اندر پرزہ جات کو آرام سے نکالنے کے لیے کو مولڈ ریلیز کیمیکل استعمال ہوتے ہیں وہ بھی باہر سے منگوائے جاتے ہیں۔ گاڑیوں کی لائیٹس، بلب، ایل ای ڈیز اور ڈسپلے وغیرہ، ڈائنمو، سپیکرز کے مقناطیس اور دیگر پرزہ جات، بیٹریوں کے لیے سکہ اور ان کے کیمیائی مرکبات، حتیٰ کہ بیٹری کی پلیٹوں کے درمیان رکھنے والا حاجز کاغذ تک باہر سے آتا ہے۔ رنگ، ان کے بنیادی مرکبات اور تیل بھی۔
ٹائر بنانے والے سارے کیمیکلز بشمول ربر درآمدی، وائرنگ کے لیے ساری تاروں کی پی وی سی کوٹنگز اور ان میں ڈالے جانے والے بیشتر مرکبات، تھمبلز اور تاریں کاٹنے والے اور تھمبلز لگانے والے پلاس اور پنچز تک سب باہر سے آتے ہیں۔ یہ تو لوہے کی صنعت کا حال ہے۔ کیمیائی صنعت کا حال بھی مختلف نہیں۔ ہماری ایک کمپنی مولڈ ریلیز کیمیکلز بناتی ہے۔ اس کے لیے سیلیکان آئل، ایملسیفائر، سٹیبلائزرز اور بائیوسائیدز تک سب درآمد شدہ ہوتے ہیں۔
صرف پانی پاکستان کا استعمال ہوتا ہے اور تقریباً تین چوتھائی کیمیائی صنعتوں کا یہی حال ہے۔ صابن بنانے کا تقریباً سارا خام مال، کپڑے دھونے کا پاؤڈر، کپڑے رنگنے کے سارے کیمیائی مرکبات، چمڑہ سازی کے تقریباً سارے مرکبات، فصلوں پر کیے جانے والے کرم کش ادویات کے سارے مرکبات، ادویات کا سارا خام مال سب کا سب درآمد ہوتا ہے۔
ڈبل روٹی، بسکٹ، کیک، چاکلیٹس، ٹافیاں، جوسز، سکواشز، جام، جیلی، چیونگم، آئس کریمز اور آیس ڈیزرٹس بنانے کے لیے استعمال ہونے والے بنیادی کیمیائی مرکبات، دہی، پنیر بنانے کا کلچر، پریزرویٹوز، کھانے میں استعمال ہونے والے تمام طرح کے رنگ اور خوشبویات سب کچھ درآمد شدہ ہے۔ گارمنٹس اور جوتوں کی صنعت کے لیے بٹن یا بٹن بنانے والے مرکبات، دھاتی بٹن، زیپیں، زیپرز، بکل اور ان کے دھاتی بیجز وغیرہ سب باہر سے آتے ہیں۔
عورتوں، بچوں کے لباس کے لیے شیشے کے نگ، لیس، ریشمی دھاگے، کڑھائی کے دھاگے۔ ستارے اور جانے کیا کیا؟ سب کے سب درآمدی۔ یہ فہرست اس قدر طویل ہو سکتی ہے کہ کئی ابواب پر مشتمل کتاب مرتب ہو جائے۔ مگر غور کریں تو جہاں یہ ہماری سستی اور نا اہلی کی داستاں ہے وہیں یہ سب کے سب مواقع ہیں ہمارے لیے کام کرنے کے۔
کتنا آسان ہے کہ بڑے شہروں میں مارکیٹ انجمنوں، یونیورسٹی اور صنعتی ایسوسی ایشن کے اشتراک سے ایسی فعال کمیٹیاں بنائی جائیں جو ان سب اشیاء کا تعین کریں جو باہر سے آتی ہیں اور یہاں بنائی جا سکتی ہیں۔ یونیورسٹی کے طلبا کو پراجیکٹس دیے جائیں۔ وہ لیبارٹری میں یہ اشیاء بنائیں، مارکیٹ یا انڈسٹری سے دلچسپی رکھنے والے لوگ اس میں سرمایہ کاری کریں اور چند سال میں چھوٹے چھوٹے سینکڑوں یونٹس لگ جائیں۔ ہزاروں لوگ برسر روزگار ہوں اور کروڑوں ڈالر کا زر مبادلہ بچے۔
ہم نمونے کے طور پر خوشحال پاکستان میں ایک ونگ تشکیل دے رہے ہیں جس کی قیادت ہونہار اور قابل جناب Ali Munawar کو سونپی گئی ہے۔ ایسے سب دوست جو یونیورسٹیوں میں چاہے طلباء ہیں یا اساتذہ، مارکیٹ اور صنعت سے تعلق رکھنے والے ایسے احباب جو وطن عزیز کو ترقی اور خود مختاری کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان سے درخواست ہے کہ اپنے آئیڈیاز سمیت ان سے رابطہ کریں تاکہ اس پروگرام کو حتمی شکل دی جا سکے۔ انشاءاللہ ہمارا یہ پہلا قدم بہت بڑے صنعتی انقلاب کا پیش خیمہ ہو گا۔