Nostalgia
ناسٹیلجیا
یہ ایک سرکاری پرائمری سکول تھا۔ چھوٹی سی عمارت کی حالت کافی ناگفتہ بہ تھی۔ عمارت کے گرد سکول کی چاردیواری نہیں۔ اور اہل محلہ کی کرم نوازی سے سکول کی ایک طرف کی دیوار کے ساتھ کچرے کے ڈھیر لگے رہتے تھے۔ دوسری طرف البتہ اینٹوں سے بنا فرش تھا۔ سردیوں میں یہ اینٹوں کا بنا فرش کمرہ جماعت میں تبدیل ہو جاتا جس پر بیٹھ کر ہم تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔
تنگی دامانِ درسگاہ اور حصول تعلیم پر آمادہ بچوں کی تعداد میں تفاوت اس قدر تھا کہ انتظامیہ سکول کو دو شفٹوں میں چلا رہی تھی۔ صبح کے وقت پہلی، دوسری اور پانچویں جماعت جبکہ دوپہر کو دوسری اور تیسری۔ ہم تیسری جماعت میں تھے اور ہمارا سکول ایک بجے لگتا تھا۔
سکول کی عمارت پانچ، چھ کمروں پر مشتمل تھی اور ہئیت ایسی کہ درمیان میں راہداری اور دونوں اطراف کمرے تھے۔ ہمارا کمرہ جماعت دائیں طرف والا دوسرا کمرہ تھا۔ کمرے کی دائیں اور بہت سی کشادہ کھڑکیاں تھیں جو اس اینٹوں والے بے دیوار صحن کی طرف کھلتی تھیں۔ جبکہ بائیں طرف والی دیوار میں صرف ایک در ہی تھا۔ اس در کے بالکل سامنے عین کمرے کے وسط میں استاد صاحب کی میز کرسی ہوتی اور میز کے سامنے کی طرف ٹاٹ کی قطاریں۔ جن پر ہم تشریف فرما ہوا کرتے تھے۔ جبکہ میز کی پچھلی طرف والی دیوار پر بڑا سا تختہ سیاہ تھا۔ چھت اور دیواروں پر سفید چونا۔
بسا اوقات کیا، ہمیشہ ہی ماں جی ہمیں دوپہر کا کھانا کھلا کر ہی سکول بھیجتیں۔ اس روز مگر کوئی مسئلہ رہا ہوگا۔ نہیں معلوم، مگر کھانا تیار نہیں تھا۔ ہم بنا کھائے سکول چلے گئے تھے۔ یہی دن تھے نومبر کے۔ جماعت میں پڑھتے ہوئے گھنٹہ بھر ہوا ہوگا۔ ہم دروازے کی طرف دیوار کے ساتھ پہلی قطار میں سب سے آگے بیٹھے تھے۔ دروازہ ہلکا سا کھلا لامحالہ قریب ترین ہونے کے ناطے سب سے پہلے ہم نے دیکھا۔ کوئی برقعہ پوش نسوانی ہیولا دروازے سے باہر دکھائی دیا۔
ماسٹر صاحب دروازے تک آئے، واپس مڑے اور ہمیں اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ امی سے کھانا لے لو۔ اور ساتھ والے کمرے میں بیٹھ کر کھا لو۔ ہم کشاں کشاں باہر نکلے، ماں جی کو سلام کیا، اور پونے میں لپیٹی روٹی لے لی۔ پونا اس وقت آٹے کے استعمال شدہ تھیلے کو دھو کر بنایا جاتا تھا۔ گھر سے فاصلے پر ایک ہنرمند لکڑی سے بنے ٹھیکوں سے مختلف رنگوں کے ڈیزائن اس آٹے کے دھلے تھلیے پر بنا کر اسے خوبصورت پونے میں تبدیل کر دیتا تھا۔ کپڑوں کو ٹھیکے سے رنگنے کا یہ منظر ہمیں بہت بھلا لگتا۔ ہم بہت دیر اس کے پاس کھڑے رہ کر اسے کام کرتا دیکھا کرتے تھے۔
دوسرے کمرے میں جہاں ہمیں بھیجا گیا تھا، کی چھت کا پلستر اکھڑا تھا جس میں سے زنگ آلود سریے جھانکتے ہوئے سرکاری عمارت کی زبوں حالی اور حکام کی عدم دلچسپی کی چغلی کھا رہے تھے۔ اس کمرے کو خطرناک جانتے ہوئے وہاں صرف کاٹھ کباڑ بھرا رہتا۔ پڑھائی نہیں ہوتی تھی۔ ہم نے وہاں جا کر پونا کھولا۔ اندر سے گرما گرم روٹی برآمد ہوئی جس پر ساگ ڈالا گیا تھا اور ساگ کے اوپر کہیں کہیں پگھلے ہوئے مکھن کی سفید باقیات، اور ایک عجیب سی انہونی جو اس سے پہلے کبھی ہوئی، اور نہ آج تک دوبارہ، ساگ پر سرخ انار کے بالکل تازہ بہت سے دانے۔
بچپنے کی سخت بھوک، سکول میں عین پڑھائی کے دوران، بالکل ہی غیرمتوقع کھانا، کیا ہی حسین منظر تھا جو آج تک ذہن سے محو نہیں ہوا۔ لیکن صرف منظر ہی نہیں، نصف صدی ہونے کو ایسا مزے دار اور پررونق کھانا دوبارہ کھانے کا اتفاق بھی نہیں ہوا۔ کیسا حسین دور تھا بچپن کا۔ کیسے پیارے بے لوث ناطے تھے۔ وقت سے بے رحم کوئی شے نہیں، سب کچھ نگل گیا۔ شفیق ماں بھی رفیق باپ بھی، طلسماتی بچپن بھی، پرجوش شباب بھی۔