Nahi Maloom Kab?
نہیں معلوم کب؟
یونیسف کے اعدادوشمار کے مطابق، پاکستان کے پانچ سے نو سال کی عمر کے پچاس لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ اور ایک کروڑ چودہ لاکھ بچے پرائمری کے بعد سکول چھوڑ چکے ہیں۔ اسی طرح ایک کثیر تعداد ایسی بھی ہوگی جو چھٹی ساتویں یا آٹھویں جماعت میں پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں۔
دوسری طرف ہم اچھی طرح آگاہ ہیں کہ ہماری روزمرہ استعمال کی بیشتر اشیاء درآمد کی جاتی ہیں۔ ٹوتھ پک سے لیکر سوئی تک اور ادویات سے لیکر کتوں، بلیوں کی خوراک تک ہم باہر سےمنگواتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارا تجارتی خسارہ کسی طور قابو میں نہیں آرہا۔ تمام تر نیک نیتی اور کاوش کے باوجود حالات دن بدن دگرگوں ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے میں ہمیں زیادہ سے زیادہ پیداواری کارخانہ جات اور ہنرمند ہاتھوں کی ضرورت ہے۔
اس صورت حال کا ایک تیسرا زاویہ بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ کوئی بھی جوان اس وقت تک کسی فیکٹری یا ادارے میں ملازمت اختیار نہیں کرسکتا ،جب تک کہ اس کا شناختی کارڈ نہ بن چکا ہو۔ اب سوچیں کہ دورِافتادہ گاؤں کا ایک جوان جس نے کسی طور بمشکل تمام مڈل پاس کرلیا ہے۔ اس کی عمر تیرہ سے چودہ سال ہوگی۔ اس کے پاس اتنی قابلیت نہیں یا گھریلو حالات ایسے نہیں ،کہ مزید تعلیم جاری رکھ سکے۔ نہ ہی کوئی ایسا ٹیکنیکل ٹریننگ سنٹر ہے، جہاں سے ہنر سیکھ سکے۔ اور قانون میں گنجائش نہیں کہ ،وہ کسی فیکٹری یا ادارے میں جاکر ہنر سیکھنا شروع کردے۔
اگر جاتا ہے تو ادارے پر قدغن لگتی ہے،جرمانہ ہوتا ہے۔کیسی بیچارگی ہے؟کہ بچہ پڑھ نہیں سکتا کہ گاؤں میں سکول نہیں، یا گھریلو حالات سازگار نہیں۔ کام نہیں کرسکتا کہ غیرقانونی ہے۔ بس وہ کھیل سکتا ہے۔ آوارہ پھر سکتا، فارغ رہ سکتا ہے۔ یا زیادہ سے زیادہ اگر گھر میں کوئی کام ہوتا ہے یا اپنی کھیتی ہے، تو مدد کرسکتا ہے وگرنہ۔ اب سوچیں جب تک وہ اٹھارہ سال کا ہوگا ،اس کو نہ کوئی کام آتا ہوگا نہ کوئی ذریعہ آمدنی اور نہ ہی اس کو کام کرنے کی عادت ہوگی۔ بلکہ بیشتر صورتوں میں وہ آوارہ گردی کے باعث، آخری درجہ کا نافرمان اور بدچلن بنا ہوگا۔
ابھی کل ہی ہمارے پاس کام سیکھنے کے لیے ایک ایسے نوجوان کو لایا گیا۔ جو میٹرک کرنے کے بعد تین سال تک صرف اس لیے فارغ پھرتا رہا ،کہ اسے کسی نے کام پر نہیں رکھا، کہ اس کی عمر کم ہے۔ ہمارے خلاف بہت سے ممالک نے بطور ِخاص، ایک ہمسایہ ملک نے چائلڈ لیبر کے حوالے سے مہم چلائی۔ اور ہم زیر ِبار آگئے۔ اور اب تک ہیں۔ اس کے بعد کبھی کسی نے نہ اس پر سوچا ہے، نہ کسی کی کوئی دلچسپی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ نوجوانوں کی ایک فوج ،بنا کسی تعلیم اور ہنر کے بیروزگاری ہی عملی زندگی میں داخل ہونے کو ہے۔
اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے کہ، ہر بچے کو کم از کم مڈل تک تعلیم کی سہولت اس کے گھر کے قریب ملے۔ اس کے بعد قابل بچوں کو مزید تعلیم دلوائی جائے اور باقی سب بچوں کو دوسال کے ہنرمندی کے مختلف کورسز کروائے جائیں۔ فیکٹری میں ملازمت کی حد پندرہ سال کی جائے۔بلکہ ہمارے خیال میں تو پندرہ سال کا نوجوان ملازمت ہی نہیں ،گاڑی اور موٹر سائیکل چلانے کے قابل بھی ہوتا ہے۔ شناختی کارڈ کی عمر پندرہ سال کی جانی چاہیے۔
اگر کسی وجہ سے یہ ممکن نہیں تو کم از کم انہیں ورک پرمٹ مل جائے،تاکہ ان کو اوائل جوانی سے کام کی عادت بنے اور وہ جلد سے جلد کماؤ پوت بن کر، اپنے خاندان والوں اور ملک کے لیے خوشحالی کا ذریعہ بنیں۔لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ کب ہمارے فیصلہ سازان، ارباب اختیار انتہائی ضروری نیند سے بیدار ہوں گے۔ کب خوشحالی ان کا ہدف اولیں بنے گی، کب ہمارے وسائل ہمارے لوگوں کو قابل، ہنرمند بنانے پر ان کی تربیت پر خرچ ہوں گے، نہیں معلوم کب اس غربت اور جہالت کے ہشت پا سے آزاد ہوں گے، نہیں معلوم کب؟