Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Mujhe Bhi Eteraz Hai Magar

Mujhe Bhi Eteraz Hai Magar

مجھے بھی اعتراض ہے مگر

سڑک پر جاتے کسی کا لباس تھوڑا مختلف یا عجیب سا ہو تو کبھی اس کو جاکے روکا ہے کہ بھائی تم نے یہ کیا پہن رکھا ہے۔ یا کوئی شخص کسی ایسی گاڑی پر جا رہا ہو جو دکھنے میں کچھ عجیب سی ہو یا ایسا ماڈل جو آپ کی نگاہ سے نہ گزرا ہو تو آپ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا کہ یہ کیسا بیہودہ شخص ہے اور یہ کیسی بیہودہ کار ہے اور آپ نے اس کو روک لیا ہو۔ نہیں ہوا نا۔ کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہوگا جس نے اپنی ساری زندگی میں ایک بار بھی ایسا کیا ہو۔ کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر ایک کو حق حاصل ہے کہ وہ جیسے چاہے جئے۔

تو پھر اگر کوئی ہم سے فرق نظریہ یا ہم سے فرق مذہب و مسلک والا شخص ہمیں ملتا ہے تو اس کے پیچھے کیوں ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں۔ اس مختلف نظریات رکھ کے جینے کا حق کیوں نہیں تسلیم کرتے۔ دیکھیں کسی بھی مذہب، کسی بھی مسلک میں یا کسی بھی نظریہ کے حامل ایک دو یا چند لوگ تو ہوتے نہیں۔ ہر نظریہ حیات پر ہزاروں لاکھوں یا پھر کروڑوں لوگ ہوتے ہیں اور پھر ان میں بے حد پڑھے لکھے، سکالرز علماء، پروفیسرز بھی ہوتے ہیں جنہوں نے اس نظریہ یا مسلک کو بہت باریک بینی سے پڑھا اور سمجھا ہوتا ہے تو اگر یہ سب مسالک یا نظریات کے پڑھے لکھے لوگ علماء یا سکالرز ہزاروں سال سے آپس میں محو مکالمہ رہنے کے باوجود اپنی اپنی روش پر قائم ہیں اور ایک دوسرے کو اپنا ہم مسلک نہیں بنا سکے تو ہم کیوں بضد ہیں کہ ہر کوئی ہر صورت ہمارا ہم نوا ہوجائے۔

ترکی اور ملیشیا ہمارے برادر اسلامی ممالک ہیں۔ ہم سے زیادہ مذاہب اور مسالک کے لوگ وہاں آباد ہیں۔ ہم نے اپنی ان گنہگار آنکھوں سے انقرہ کی ایک مسجد میں ایک لانگ سکرٹ پوش دوشیزہ کو نماز ادا کرتے دیکھا ہے۔ کوالالمپور میں حجاب میں صائم خواتین رمضان المبارک میں سڑک کنارے دوپہر کا کھانا بیچ رہیں ہوتی ہیں۔ وہاں کسی کے اسلام کو کوئی خطرہ نہیں۔ حتی کہ تہران میں حجاب پوش دوشیزہ جینز پہن کر موٹر سائیکل پر دونوں اطراف ٹانگیں کرکے سفر کررہی ہوتی کسی کا کچھ لینا دینا نہیں۔

بنیادی طور پر اجتماعی معاشرے میں جینے کا سب سے خوبصورت وصف ہے co existence بقائے باہمی۔ ان قوموں نے اکٹھے رہنا سیکھ لیا ہے۔ ان کے معاشروں میں ایسا کوئی مسئلہ ہی نہیں کہ اس نے یہ کیا کہہ دیا اور اس نے یہ کیا کردیا۔ وہاں بس ایک ہی اصول ہے جس کا جو جی میں آئے کرے۔ مجھے اپنے کام سے کام رکھنا ہے اور یہ اصول وطن عزیز میں سب کو ہی سیکھنا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کیا سیاسی تو کیا مذہبی جماعتوں کے کارکن اور تو اور ہمارے جدید آزاد خیال روشن دماغ بھی دن رات صرف اور صرف ایک ہی کام میں مشغول ہیں اور وہ انگلی اٹھانا۔ اعتراض کرنا جو بھی کام کوئی بھی دوسرا کررہا ہے اس پر اعتراض کیوں کہ وہ مجھ سے الگ طرح سے سوچتا ہے۔

دیکھا جائے تو میں بھی تحریر اعتراض ہی کررہا ہوں انگلی ہی اٹھا رہا ہوں مگر صرف اعتراض کرنے والوں پر، میرا بس ایک ہی اعتراض ہے۔۔ اعتراض کرنے والوں پر اور ایک التجا آئیں آج سے مل کر جینا سیکھ لیتے ہیں۔ آج سے دوسروں پر ان کے اپنے سے مختلف نظریات اور اوامر پر انگلی اٹھانا چھوڑ دیتے ہیں۔ آئیں آج سے صرف اپنے کام سے کام رکھنے کا عہد کرتے ہیں۔

آخر میں ایک حکایت۔۔ ایک بچہ بس میں سفر کرتے ہوئے چاکلیٹ کھا رہا تھا۔ ساتھ بیٹھے بزرگ نے سمجھایا بیٹا زیادہ چاکلیٹ کھانے سے صحت خراب ہوتی ہے دانت میں کیڑا لگ جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ بچہ کہتا میرے دادا ابو کی عمر ایک سو چھ سال ہے اور مکمل طور پر صحت مند ہیں۔ بزرگ نے پوچھا وہ بہت چاکلیٹ کھاتے ہیں کیا۔

نہیں وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ بچے نے جواب دیا۔

Check Also

Bushra Bibi Aur Ali Amin Gandapur Ki Mushkilat

By Nusrat Javed