Muft Ki Khaad
مفت کی کھاد
جو دوست ہوائی سفر کا تجربہ رکھتے ہیں وہ بخوبی آگاہ ہوں گے کہ زمین سے اوپر فضا کا درجہ حرارت بہت ہی کم ہوتا ہے۔ تیس ہزار فٹ کی بلندی پر تو عموماً منفی پچاس درجہ سینٹی گریڈ ہی رہتا ہے۔ لیکن زمین سے دو سے پانچ کلومیٹر اوپر بھی درجہ حرارت پانی کے نقطہ انجماد سے نیچے ہی ہوتا ہے۔ یہ وہ بلندی ہے جس پر عام طور پر بادل پائے جاتے ہیں۔ یہ تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ بادل بنیادی طور پر آبی بخارات یعنی پانی کے چھوٹے چھوٹے ذروں سے ملکر بنتے ہیں جو ہواؤں کے دوش پر تیر رہےہوتے ہیں۔
جب یہ بخارات سے لدے بادل اس بلندی پر پہنچتے ہیں جہاں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کم ہوتا ہے تو اس میں موجود بخارات برف کے ذروں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ جو بخارات انتہائی چھوٹے ہوتے ہیں اور برف بننے کے بعد بھی اسی طرح ہواؤں کے ساتھ اوپر اٹھتے رہتے ہیں۔ مگر جو بڑے بخارات ہیں وہ بڑے برف کے ذرے یا اولے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ اپنی کثافت کی وجہ سے اوپر اٹھنے سے قاصر ہوتے ہیں بلکہ بیشتر صورتوں میں نیچے کی طرف آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس افتراقی حرکت کے دوران کہ جب چھوٹے ذرات اوپر کو جارہے ہیں اور بڑے نیچے کو، چھوٹے اور بڑے ذرات ایک دوسرے سے بری طرح رگڑ کھاتے ہیں۔ اس رگڑ کے نتیجے میں ان کے اندر الیکٹرانز کا تبادلہ ہوتا ہے۔ چھوٹے ذرات پر مثبت چارج آجاتا ہے جبکہ بڑے ذرات پر منفی چارج۔
یہ بالکل وہی عمل ہے جو ہم نے برق سکونی کے نام سے بچپن میں پڑھ رکھا ہے۔ جس میں بتایا جاتا تھا کہ خشک بالوں میں کنگھا پھیرنے کے بعد کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کے قریب لانے سے وہ ٹکڑے اس کی طرف کھنچ آتے ہیں۔ اب ہوا کیا کہ پورا بادل اوپری طرف سے لاکھوں کولمب مثبت چارج لیے ہوئے ہے اور نچلی طرف منفی چارج۔ اگر بادل کی اونچائی کم ہو اور بادل کے چارج کی مقدار بہت زیادہ ہو تو نچلے حصے کا منفی چارج زمین پر اثر کرتے ہوئے اس میں مثبت چارج پیدا کرلیتا ہے اور پھر چارج کی ایک لہر بادل سے زمین کی طرف دولاکھ ستر ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے لپکتی ہے۔ اس عمل کو ہم بجلی گرنا کہتے ہیں۔ لیکن ایسا کم کم ہوتا ہے۔
زیادہ تر یوں ہوتا ہے کہ دو مختلف بلندیوں کے بادل ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں ایک کا نچلا منفی چارج اور دوسرے کا اوپری مثبت چارآپس میں ٹکراتے ہیں۔ پھر وہی دولاکھ ستر ہزار کلومیٹر کی لپک اور تیس ہزار ڈگری سینٹی گریڈ کا شعلہ پیدا ہوتا ہے۔ اس عمل کو بجلی چمکنا کہتے ہیں۔ اسقدر بلند درجہ حرارت کی وجہ سے ہوا پھیلتی ہے جو شاک ویوز پیدا کرتی ہے جس کی آواز گرج کی صورت سنائی دیتی ہے۔
اب دوسری طرف زمین کے گرد آب و ہوا میں تقریباً اٹھہتر فیصد نائٹروجن گیس ہے۔ دنیا میں موجود ساری حیات، انسان چرند پرند حتیٰ کہ جراثیم تک نائٹروجن کے مرہون منت ہے۔ ہمارا انسانوں کا اور تمام جانداروں کا سارا گوشت پروٹینز پر مشتمل ہے جو امائنو ایسڈز سے بنتے ہیں اور امائنو ایسڈز نائٹروجن کے بغیر بن ہی نہیں سکتے۔ لیکن ہمیں اور ساری حیات کو نائٹروجن کمبائنڈ یعنی جڑی ہوئی شکل میں چاہیے۔ آسان لفظوں میں نائٹروجن حیات کے لیے صرف اسی صورت کارآمد ہے جب یا تو آکسیجن کے ساتھ جڑی ہو نائٹریٹ کی شکل میں یا کاربن کے ساتھ آرگینک کمپاؤنڈ کی شکل میں۔
جبکہ گیس کی حالت میں نائٹروجن آپس میں جڑی ہوتی ہے۔ یعنی نائٹروجن کے دو ایٹم ملکر ایک مالیکیول بناکر رہتے ہیں۔ یہ مالیکیول کی شکل کی نائٹروجن جب تک ایٹمی شکل میں تبدیل نہ ہوجائے اسے نائٹریٹس یا آرگینک مادے میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے لفظوں میں فضا میں موجود نائٹروجن اس حالت میں حیات کے لیے ناکارآمد ہے۔ دنیا بھر میں سینکڑوں کارخانے فضا سے نائٹروجن لیکر اسے جڑی ہوئی شکل یعنی یوریا کھاد میں تبدیل کرتے ہیں۔ یہ جڑی ہوئی نائٹروجن زمین میں ڈال کر فصلیں حاصل کی جاتی ہیں۔ جو جانوروں اور انسانوں کے لیے انتہائی ضروری بلکہ ان کی حیات کا ضامن قابل استعمال نائٹروجن مادہ یعنی خوراک ہے۔
سن 2018 میں دنیا بھر کے کارخانوں میں اکیس کروڑ ٹن یوریا تیار کی گئی۔ جس کی تیاری میں فضا سے لگ بھگ نوکروڑ ٹن نائٹروجن لیکر استعمال کی گئی۔ اب سنیں۔ جب بادلوں میں بجلی چمکتی ہے تو ایک بار چمکنے سے سینکڑوں کلوگرام نائٹروجن ایٹمی شکل میں تبدیل ہوکر آکسیجن کے ساتھ اور پھر بادلوں میں موجود پانی کے ساتھ تعامل کرکے حیات کیلئے قابل استعمال جڑی نائٹروجن یعنی نائٹریٹس بناتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سال بھر میں بادلوں کے چمکنے سے بننے والے نائٹریٹس کی مقدار باسٹھ کروڑ ٹن ہے۔ جس کیلئے دس کروڑ ٹن نائٹروجن استعمال ہوتی ہے۔
آسان لفظوں میں بادلوں کے محض ایک عمل یعنی بجلی چمکنے سے دنیا بھر کی ساری یوریا کمپنیوں سے زیادہ نائٹروجنی کھاد دنیا کو مہیا ہوتی ہے۔۔ اور وہ بھی بالکل مفت? تو اگلی بار جب جب بجلی چمکے اور بادل گرجے دل سے کہیے گا?
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا، تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔