Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Machli Ka Chamra

Machli Ka Chamra

مچھلی کا چمڑا

پاکستان فی کس مچھلی استعمال کرنے کی شرح کے حوالے سے دنیا بھر کے ممالک میں آخری نمبروں پر ہے۔ دنیا کی اوسط سترہ کلو فی کس سالانہ کے مقابلہ میں یہاں صرف دوکلو سالانہ مچھلی فی کس کھائی جاتی ہے۔ مگر اس اوسط کیساتھ بھی ہم چالیس کروڑ کلوگرام یعنی چار لاکھ ٹن مچھلی سالانہ استعمال کرتے ہیں۔

مچھلی کی جو اقسام زیادہ تر پاکستان میں استعمال کی جاتی ہیں ان میں رہو، تھیلا، سلور فش، سول، چڑا، ملہی، کھگا اور بام وغیرہ شامل ہیں۔ رہو، تھیلا اور سلور فش زیادہ تر جلد کے ساتھ ہی پکائی جاتی ہیں، جبکہ سول، ملہی چڑا اور بام وغیرہ جلد اتار کر استعمال کی جاتی ہیں۔ گو کہ درست اعدادوشمار موجود نہیں لیکن چونکہ فنگر فش زیادہ تر سول کا ہی بنتا ہے تو ہم فرض کرلیتے ہیں کہ ثانی الذکر کا استعمال کل کا ایک چوتھائی رہا ہوگا۔

دوسرے لفظوں میں لگ بھگ دس لاکھ ٹن مچھلی کی جلد ہم ہر سال اتار کر مچھلی کے دوسرے فضلہ کے ساتھ پھینک دیتے ہیں جس سے مرغیوں اور مچھلیوں کی خوراک کیلئے پروٹین میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ اگر مچھلی کی جلد کل وزن کا پانچ فیصد بھی ہو تو یہ مقدار پانچ ہزار ٹن یا پانچ کروڑ کلو سالانہ بنتی ہے۔

بہت کم لوگوں کے علم میں ہو گا کہ مچھلی کی جلد بھی بالکل گائے بھینس اور بکروں کی کھال کی طرح باقاعدہ رنگائی کے عمل سے گذار کر خوبصورت چمڑے میں تبدیل کی جاسکتی ہے۔ اس پر مچھلی کے چانوں کی وجہ سے قدرتی طور پر خوبصورت نقش ونگار پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ جو دوسرے کسی چمڑے پر مشکل سے مہنگی اور بھاری مشینری کی مدد سے بنانا پڑتے ہیں۔ دنیا بھر میں مچھلی کے چمڑے کا آرٹسٹک استعمال دن بدن بڑھ رہا ہے۔

مچھلی کے چمڑے سے خواتین کے پرس، جوتے، بیلٹیں اور دیگر اشیاء بنائی جاتی ہیں جو انتہائی دیدہ زیب ہونے کے ساتھ ساتھ وزن میں دوسرے چمڑے کی بنی اشیاء کی نسبت انتہائی کم قیمت ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مچھلی سے بنا چمرا طاقت اور مضبوطی میں بکرے کی کھال سے بنے چمڑے کی نسبت تین سے پانچ گنا زیادہ ہوتا ہے۔

مچھلی کی جلد سے چمڑہ کا عمل بالکل دوسرے چمڑہ رنگنے جیسا ہے۔ لیکن اس کے چھوٹے سائز کی وجہ سے اس کو گھریلو صنعت کے طور پر لگایا جاسکتا۔ اس کیلئے لکڑی کا چھوٹا سا ایک گھومنے والا ڈرم، چھوٹے سے چند پلاسٹک کے ٹینک اوراور چھوٹی سی روغن کرنے والی مشین چاہیے۔ چمڑہ رنگنے کا ہنر بنانے کے چھوٹے چھوٹے کورسز ڈیزائن کروا کر نوجوانوں کو سکھا دیے جائیں۔ اور مچھلی فروشوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ تھوڑی احتیاط سے جلد اتار کر باقی فضلے سے علیحدہ ایک ڈرم میں رکھتے جائیں جسے وقفہ وقفہ نمک لگا دیا جائے تو بڑے پیمانے پر اس کا خام مال دستیاب ہوگا۔ ہزاروں لوگوں کو چمڑہ بنانے اور اتنے ہی لوگوں کو اس کی اشیاء بنانے کی صنعتوں میں برسر روزگار کیا جاسکتا ہے۔

یہاں یہ بتانا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ مچھلی کے چمڑے کی فی مربع فٹ قیمت فروخت بکرے کے چمڑے سے تین سے پانچ گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اور اسی طرح اس سے بنی اشیاء بھی کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت ہوتی ہیں۔

کینیا نے سال 2016 سے اسے گھریلو صنعت کے طور پر متعارف کروایا تھا۔ اب کینیا میں ہزاروں لوگ اس صنعت سے وابستہ ہیں۔ سالانہ کروڑوں ڈالر کا فش لیدر کینیا، چین اور دوسرے ممالک کو برآمد کرتا ہے۔ بھارت کے صرف ایک ایکسپورٹ ہاؤس نے گذشتہ برس دو ارب روپے کا فش لیدر یورپی ممالک کو برآمد کیا۔

گوجرانوالہ انسٹیٹیوٹ آو لیدر ٹیکنالوجی کے ایک ہونہار طالبعلم نے اس منصوبہ پر کامیابی سے کام۔ کیا ہے وہ اس کو باقاعدہ کاروبار کے طور پر اپنانا چاہتے ہیں۔ یقیناً ان کا یہ عمل دیگر ہم وطنوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ کوئی مچھلی کے کاروبار سے متعلقہ لوگ مچھلی کی جلد مناسب قیمت پر فروخت کرنا چاہیں تو ان سے رابطہ کرسکتے ہیں۔

مچھلی کی جلد ستر فیصد کولاجن پروٹین پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس پروٹین کو سادہ کیمیائی عمل کے ذریعے علیحدہ کر کے تیزاب کے ساتھ تعامل کرنے سے کولاجن ہائیڈرولائزیٹ بنایا جاتا ہے۔ یہ کولاجن ہائیڈرولائزیٹ ہی وہ جیلاٹن ہے جس سے ادویات میں استعمال ہونے والے کیپسول بنائے جاتے ہیں۔ یہ جیلاٹن کروڑوں روپے کی سالانہ درآمد ہوتی ہے۔

کیمسٹری کے طلباء وطالبات اپنے فائنل ائیر پراجیکٹ میں اس پر کام کریں۔ اور اساتذہ کی راہنمائی میں اس کا پائلٹ پراجیکٹ بنائیں۔ بہت سے لوگ اس میدان میں سرمایہ کاری پر تیار ہوجائیں گے، یوں ایک انتہائی کم قیمت کے خام مال کو بہت ہی قیمتی مرکب میں بدل کر کروڑوں روپے کا زرمبادلہ بچایا جاسکتا ہے۔ اگر ہمیں بحیثیت قوم خوشحال ہونا ہے تو ہمیں ہر ہر میدان میں کام۔ کرنا ہوگا۔۔

Check Also

Amjad Siddique

By Rauf Klasra