Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Khushali Ki Eidi

Khushali Ki Eidi

خوشحالی کی عیدی

کچھ سجنے سنورنے کی بات ہوجائے۔ اور سنورنے کیلئے انتہائی اہم جزو ہے زیور۔ جبکہ زیور کا سب سے خوبصورت گوشہ ہے قیمتی پتھروں سے بنے زیورات۔ قیمتی پتھروں میں سب سے زیادہ آؤ بھگت ہیرے، روبی، سیفائر اور زمرد کی، کی جاتی ہے۔ ان پتھروں کی سالانہ اربوں ڈالر کی خریدو فروخت کی جاتی ہے لیکن شاید بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگا کہ ان اربوں ڈالر میں آدھے سے زیادہ حصہ مصنوعی طور پر بنائے جانے والے پتھروں کا ہے۔

مصنوعی طور پر بنائے جانے والے پتھروں میں روبی اور سیفائر سر فہرست ہے۔ کیمیائی طور پر روبی اور سیفائر دونوں ہی ایلومینا سے بنے ہوتے ہیں۔ (جی وہی ایلومینا جس کے متعلق کچھ روز قبل ایک مضمون میں بتایا تھا کہ اسکا خام مال پاکستان میں وافر مقدار میں موجود ہے مگر اس کی تخلیص کا کوئی بھی کارخانہ ابھی نہیں لگا۔ پاکستانی ضرورت کا سارا ایلومینا درآمد کیا جاتا ہے۔)

عام ایلومینا کو اگر گیارہ سو ڈگری سینٹی گریڈ تک کچھ وقت کے لیے گرم کرلیا جائے تو یہ ایلفا ایلومینا میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہ ایلفا ایلومینا بہت سخت ہوتا ہے اورعام طور اس کا پاؤڈر دھاتوں کو رگڑنے اور پالش کرنے کے کام آتا ہے اس کی دستیابی بالکل آسان ہے۔ قیمت تین سو روپے فی کلوگرام کے قریب ہوگی۔ اگر ایک کلوگرام ایلفا ایلومینا میں دس سے پندرہ گرام سبز کرومیم آکسائیڈ ملا کر اسے کسی بھی طریقے سے پگھلا لیا جائے تو یہ مصنوعی روبی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

تجارتی پیمانے پر اس عمل۔ کیلئے زیادہ تر تین طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔

شیکورالسکی کا طریقہ Czochralski process

فلیم فیوزن پراسیس Flame fusion process

فلکس روبی پراسیس Flux Ruby process

شیکورالسکی کے طریقے کے مطابق پلاٹینم یا گریفائٹ کے ایک برتن میں ایلومینا اور کرومیم آکسائیڈ کے آمیزے کو پگھلا کر اس میں ایک سیڈ کرسٹل ڈالا جاتا ہے۔ اس سیڈ کرسٹل کو پھر آہستہ آہستہ اوپر کھینچا جاتا ہے جس کے ساتھ مصنوعی روبی بننا شروع ہوجاتا ہے۔ دو گھنٹے میں قریب چار انچ لمبا کرسٹل تیار ہوجاتا ہے۔ جسے بعد ازاں کاٹ پالش کرلیا جاتا ہے۔

چھوٹی شیکورالسکی فرنس سات ہزار ہزار ڈالر میں دستیاب ہے۔ بہت خالص خام مال کی قیمت بھی ایک ہزار سے زیادہ نہ ہوگی۔ ایک فرنس پر دن میں ایک سے دو کلوگرام خام۔ روبی تیار کیا جاسکتا ہے۔ خام روبی کی قیمت معیار کے لحاظ سے پچاس سے دوسو ڈالر فی کلوگرام یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔

فلیم فیوزن کے طریقہ میں ایلومینا اور کرومیم آکسائیڈ کے آمیزے کو ایک کون نما برتن میں ڈال کرباریک سوراخ سے نیچے گرنے دیا جاتا ہے جہاں ایک ٹارچ میں ہائیڈروجن اور آکسیجن کا شعلہ جل رہا ہوتا ہے۔ اس شعلے میں سے گذر کر یہ آمیزہ پگھل جاتا ہے۔ پگھلا ہوا آمیزہ نیچے ایک گھومتے ہوئے سیڈ کرسٹل پر آہستہ آہستہ جمع ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ جسے خود کا ر طریقہ سے ایک خاص رفتار سے نیچے کی طرف کھینچا جاتا ہے۔۔

فیوزن فلیم کے طریقہ سے شیکورالسکی سے بھی زیادہ تیزی سے روبی بنایا جاسکتا ہے۔ اس کی ایک مشین تقریباً تین ہزار ڈالر کی ہے جس پر دن بھر میں دو سے تین کلو تک روبی بنا سکتے ہیں۔ نیز اس طریقہ میں توانائی کا خرچ بھی کم آتا ہے اس مشین کو بنانا شیکورالسکی سے کئی گنا آسان ہے۔ اگر ایک مشین پاکستانی کاریگروں کو لاکر دیدی جائے تو وہ باآسانی دولاکھ روپے میں اس کی نقل بناسکتے ہیں۔

گو فلکس روبی پراسس میں تیار شدہ روبی معیار اور قیمت میں بالکل اصلی روبی کے برابر یا قریب قریب ہوتے ہیں مگر اس کا طریقہ بہت زیادہ پیچیدہ اور صبر آزما ہے اس میں ایک روبی تقریباً آٹھ ماہ کی مدت میں بنتا ہے لہذا فی الحال اس کی تفصیل یہاں درج نہیں کی جارہی۔

شیکورالسکی اور فیوزن فلیم کے طریقہ اور مشینری پر ہی سیفائر بھی بنتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ سیفائر کا خام مال ایلومینا اور کرومیم آکسائیڈ کی بجائے ایلومینا، ٹاٹینیم آکسائیڈ اور تانبے کے مرکبات پر مشتمل ہوتا ہے۔

جرمنی، فرانس، روس، چین، تھائی لینڈ اور بھارت دنیا میں مصنوعی روبی اور سیفائر پیدا کرنے والے بڑے ممالک ہیں۔ بھارت میں سرکاری سطح پر اس کے بنانے اور پالش کرنے کی تربیت دی جاتی ہے نیز یہ مشینیں بھی بھارت میں مقامی طور پر تیار ہوتی ہیں۔ جب کہ پاکستان میں شاید ہی کبھی کسی نے اس طرف دھیان دیا ہو۔

مجھے تو بہت ہی آسان لگتا ہے کہ کسی ایک شہر جیسے کامونکی، مانسہرہ یا خضدار میں صرف ایک کروڑ یا اس سے بھی کم کی لاگت سے کسی بھی گورنمنٹ کے ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر میں دو تین کمروں میں چند مشینیں لگا کر آرٹیفیشل جیم سٹون سنٹر بنادیا جائے۔ جہاں نہ صرف روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں روپے کے مصنوعی روبی اور سیفائر تیار کیے جائیں بلکہ طلبا کو مصنوعی روبی اور سیفائر بنانے کی تربیت دے کر اس کی تیاری پر لگا دیا جائے۔

سرکار کے کامیاب نوجوان پروگرام میں ایسے نوجوانوں کو جو ان اداروں سے تربیت یافتہ ہوں ترجیحی بنیادوں پر قرضے فراہم کیے جائیں تو کچھ ہی سالوں میں ان چند شہروں میں اس صنعت کا جال بچھایا جاسکتا ہے۔ اس عمل سے جہاں ہزاروں لوگوں کو روزگار بھی ملے گا وہیں یہ صنعتیں مقامی ضروریات پورا کرتے ہوئے زرمبادلہ کی بچت کریں گی۔ اور پھر کیا بعید کہ ہم مصنوعی پتھروں کی برآمد سے لاکھوں ڈالرز سالانہ کا زرمبادلہ کما بھی رہے ہوں۔

کاش ہزاروں لوگوں کو روزانہ خیرات میں کھانا کھانے والے کبھی انہیں ہنرمند بناکر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا بھی سوچیں۔

Check Also

Aik He Baar

By Javed Chaudhry