Khaal Se Ghaleecha Banana
کھال سے غالیچہ بنانا
ایران کے شہر تہران میں ایک کمپنی کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ دیوار پر بھورے اور سفید رنگ کی خوبصورت کھال خوبصورت فریم میں جڑی لگی بہت بھلی لگ رہی تھی۔ کھال کا سائز ایسا تھا کہ وہ بکری کے چھوٹے بچے سے بھی کچھ چھوٹی تھی۔ میزبان سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ بھورے جنگلی خرگوش کی کھال ہے۔
اس کے بعد بہت سی جگہوں پر کہیں بکرے اور کہیں گائے وغیرہ کی کھالیں بالوں سمیت دیکھیں۔ جنہیں محفوظ کرکے غالیچہ یا صوفہ کور کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک واقف حال نے بتایا کہ یہاں لوگ گھریلو صنعت کے طور کھالوں کو غالیچہ میں بدلنے کا کام کرتے ہیں۔ اور مناسب روزگار کماتے ہیں۔
پاکستان میں قربانی کی کھالوں کی قیمت کئی سال سے انتہائی کم چل رہی ہے۔ ایسے میں اس گھریلو صنعت کا تعارف اور قیام بہت منافع بخش دکھائی دیتا ہے۔ گھریلو طور پر کھال محفوظ کرکے اسے بطور مصلیٰ اور غالیچہ یا دیورا گیر قطعہ بناکر اس کی ویلیو ایڈیشن کی جاسکتی ہے۔ ان اشیاء کی وسطیٰ ایشیا اور یورپ میں بڑی مانگ ہے۔ ایسے میں جہاں ہم ہزاروں افراد کو اس کی تیاری میں مصروف کرکے برسرِ روزگار کرسکتے ہیں وہیں درجنوں لوگ اس کی برآمد سے اپنا روزگار کما سکتے ہیں۔
روایتی طور پر کھال محفوظ کرنے کے طریقے جاننے سے قبل یہ سب لوگوں کے لیے یہ جاننا از حد ضروری ہے کہ کھال کو قربانی کے فوراً بعد نمک لگانا از حد ضروری ہے۔ کسی بھی کھال کو جسے بعد میں محفوظ کرنا ہو اس کو پھیلا کر اس کی اندر کی سطح پر اچھی طرح نمک کا چھڑکاؤ کرکے کہ اس کا کوئی بھی حصہ نمک سے خالی نہ ہو، سایہ دار جگہ پر پھیلا کر رکھ دیں۔ دس بارہ گھنٹے میں اس کا سارا پانی نچڑ جائے گا۔ اب اسے لمبے عرصے کے لیے سایہ دار ہوا دار جگہ پر بنا خراب ہوئے رکھا جاسکتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ نمک لگی کھال کو کبھی بھی مومی لفافے یعنی شاپر بیگ میں نہیں ڈالنا چاہیے۔
جب نمک لگی کھال سے دیوار گیر قطعات بنانا مقصود ہوں تو اسے چند گھنٹوں کے لیے پانی میں ڈبو کر رکھ دیں تاکہ یہ واپس اپنی اصل نرم حالت میں آجائے۔ بہتر نتائج کے لیے اس پانی میں تھوڑا سا ڈیٹول اور کپڑے دھونے والا ڈیٹرجنٹ ملا لیں۔ اگلے مرحلے میں پھر اسے پانی میں کپڑے دھونے والا ڈیٹرجنٹ ڈال کر کچھ وقت کے لیے چھوڑ دیں۔ ازاں بعد اچھی طرح مل کر دھو لیں۔ مگر خیال رہے کہ نچوڑنا نہیں اور نہ ہی بہت زور زور سے ہلانا کہ بال اترتے رہیں۔ اس کے بعد اندر کی طرف سے کھال کو چاقو یا چھری کی مدد سے اچھی طرح صاف کرلیں کہ اس میں کوئی گوشت، چربی یا چھیچھڑے کا ٹکڑا نہ بچے۔
پھر اس قدر پانی لیں کہ جس میں کھال ڈوب جائے۔ عام طور پر کھال کے وزن سے ڈیڑھ گنا ہوتا ہے۔ اس پانی میں ایک کلو نمک کے ساتھ فارمک ایسڈ، اگزیلک ایسڈ، نمک یا گندھک کے تیزاب کی اتنی مقدار ڈالی جائے کہ پی ایچ 2.8 سے تین ہوجائے۔ اس محلول میں صاف کی گئی کھال ڈبو دیں۔ ہر دو گھنٹے بعد ہلائیں اور پی ایچ چیک کریں۔ پی ایچ بڑھنے کی صورت میں مزید تیزاب شامل کرتے جائیں۔
آٹھ گھنٹے تک یہ عمل کرنے کے بعد اسی محلول میں کھال کے وزن کے مطابق پانچ سو گرام سے سات سو گرام تک پھٹکری ڈال دیں۔ اور اسے دو سے تین دن کے لیے چھوڑ دیں۔ اس دوران اسے چند گھنٹوں بعد الٹ پلٹ کرتے رہیں۔ کھال کی ایک طرف تیز دار چھری سے کٹ لگا کر چیک کریں اگر تو تمام کھال کا رنگ ایک جیسا سفید ہے تو عمل مکمل ہوچکا ہے۔ لیکن اگر کناروں سے سفید اور درمیان سے سرخی مائل ہے تو مزید وقت کے لیے چھوڑ دیں۔
جب عمل مکمل ہوجائے تو سادہ پانی میں میٹھا سوڈا کا محلول بنا کر چار گھنٹے میں وقفے وقفے سے ڈال کر اس کی پی ایچ 5۔ 5 کردیں۔ اس کے بعد سادہ پانی سے دھو کر نچڑنے کے لیے ڈال دیں۔ آدھے گھنٹے میں پانی نچڑ جائے تو لوہے یا پلاسٹک کی مدد سے بالوں کو برش۔ کرکے سیدھا کردیں۔ اور لکڑی پر پھیلا کر سب اطراف میں کیل لگا دیں۔ تاکہ خشک ہوتے ہوئے یہ سکڑ کر شکل تبدیل نہ کرلے۔ خشک ہونے کے بعد اس کی اندر کی طرف کوئی سا تیل یا چربی تیل کا آمیزہ لگادیں۔
دیوار گیر قطعہ تیار ہے۔ پھٹکری سے محفوظ کی گئی کھال نمی سے جلد متاثر ہوتی ہے۔ اور اس کو اگر غالیچہ یا مصلیٰ کے طور پر استعمال کیا جائے تو گیلا ہونے پر اس کے بال جلد جھڑنے لگتے ہیں۔ اس لیے اس مقصد کیلئے کھال کی تیاری کا دیگر تمام عمل وہی رہے گا صرف پھٹکری کی جگہ اس کی تیاری میں بیسک کرومیم سلفیٹ استعمال ہوگا۔ یاد رہے کہ اسی طریقے سے خرگوش، گلہری اور دیگر جانوروں کی کھال بھی محفوظ کی جاسکتی ہے۔
ہمارے مدارس یا ادارے جہاں بہت سی کھالیں اکٹھا کی جاتی ہیں، وہاں طلبا کو تھوڑی سی تربیت دیکر اس کام پر لگایا جاسکتا ہے۔ جس سے نہ صرف ان کے لیے باعزت روزگار کا بندوبست ہوگا بلکہ ان اداروں کے لیے بہتر وسائل مہیا کرنے میں بھی مددگار ہو گا۔
جو لوگ اپنے لیے یا گھریلو صنعت کے طور پر اس کام کو سیکھنا چاہیں، رابطہ میں رہیں۔ یا خوشحال پاکستان کا پیج فالو کرلیں۔ ہم جلد ہی خوشحال پاکستان مرکز میں ان کے تربیتی کورس کا اہتمام کر دیں گے۔ جہاں سارے عمل کی عملی مشقیں کروادی جائیں گی۔