1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. Karobari Hikmat

Karobari Hikmat

کاروباری حکمت

میں نے اپنی زندگی میں آج تک کسی بھی شخص کا جو سب سے مہنگا گھر دیکھا ہے وہ ایک چینی باشندے مسٹر چُو کا تھا۔ چین کے مغربی حصے کے سب سے ترقی یافتہ شہر چونگ چنگ میں دریائے جیلنگ کے کنارے تاحد نگاہ پھیلے اس گھر کی قیمت سال دوہزار تیرہ میں لگ بھگ چھ ارب روپے پاکستانی تھی۔

مسٹر چو کی کامیابی کی داستان کاروباری حکمت کی زبردست مثال ہے۔ تعلیمی لحاظ سے فارماسسٹ، مسٹر چو سال دوہزار پانچ میں ایک چھوٹی سی ادویات اور ان کے خام مال بنانے والی فیکٹری کے مالک تھے۔ جو علاقہ میں موجود درجنوں دوسری فیکٹریوں کی طرح نہایت کم منافع پر خام مال بناکر فروخت کرتے تھے۔ تب ان کے پاس آئرلینڈ سے ایک گورا آیا۔ اور ایک مالیکیول بنانے کیلئے کہا۔

مسٹر چو کا کہنا ہے کہ ان کے سٹاف نے کچھ عرصہ کی کوشش سے لیبارٹری میں وہ مالیکیول بناکر اس گورے کو ٹسٹ کرنے کیلئے دیدیا۔ ٹسٹ پاس کرنے کے بعد گورے نے انہیں آزمائشی مال بنانے کا آرڈر دیا۔ اور دونوں کے درمیان ڈھائی ڈالر فی کلوگرام نرخ طے ہوگیا۔ مسٹر چو کے مطابق اس نرخ پر انہیں اس مال میں، ان کے روایتی ادویات کے خام مال کی نسبت کئی گنا زیادہ منافع ہورہا تھا۔

دوسال تک مسٹر چو کی فیکٹری دن رات صرف آئرلینڈ کے اس باشندے کا کام کرتی رہی۔ آخر ایک دن انہوں نے سوچا کہ یہ کونسا کیمیکل ہے جس کی طلب ہی ختم نہیں ہوتی۔ اور اس کا استعمال کیا ہے۔ ان کے علم اور تجربہ کے مطابق یہ کیمکل ادویات میں کہیں استعمال نہیں ہوتا تھا۔ ایک نیا کیمسٹ صرف اس کام پر مامور کردیا گیا کہ وہ اس کیمیکل کا استعمال تلاش کرے۔ اور پھر ایک دن یہ عقدہ کھل گیا۔

وہ انگریز دنیا کی مشہور ترین کمپنی سائٹک Cytec کا نمائندہ تھا۔ جو دنیا بھر میں کان کنی اور دھاتوں کی تیاری میں استعمال ہونے والی کیمیائی مرکبات بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ اور یہ کیمکل جو ان سے بنوایا جارہا تھا تانبے کی تیاری میں استعمال ہوتا تھا۔ سائٹک جو خالص کیمیکل ان سے ڈھائی ڈالر فی کلوگرام خرید رہی تھی۔ وہ آدھا کیمکل اور آدھا مٹی کا تیل ملا کر چودہ ڈالر فی کلو بیچ رہی تھی۔ (ہم نے خود اپنی کمپنی کیلئے آئرلینڈ سے یہ مرکب دوہزار تیرہ میں خریدا تھا جو اس وقت ہمیں پاکستانی دوہزار روپے فی کلو پڑا تھا۔)

مسٹر چو کہتے ہیں اس جانکاری کے بعد ہم نے تانبے کی تیاری کا عمل سیکھا۔ اس کیمکل کا اس میں استعمال سیکھا۔ ایک پائیلٹ پلانٹ بنایا جس میں اس کیمکل پر ہر طرح کے تجربات کیے۔ اورجیسے ہی اس کمپنی سے تیاری کی مدت کا معاہدہ ختم ہوا، تابنہ بنانے والی کمپنیوں سے رابطہ شروع کردیا۔ سائیٹک کی چودہ ڈالر کی نسبت انہوں نے پچاس فیصد طاقت کا نرخ دس ڈالر فی کلوگرام مقررکیا۔

کیمیکل چونکہ وہی تھا، کام بہترین کرتا تھا فوری پذیرائی ملی اور چین، افریقہ، جنوبی امریکہ اور یورپ کی کمپنیوں سے دھڑادھڑ آرڈر ملنا شروع ہوگئے۔ پھر انہوں نے دھاتوں کی تیاری میں استعمال ہونے دیگر کیمیائی مرکبات بھی بنا لیے۔ یوں محض چند سال میں وہ سائیٹک کے بعد اس نوعیت کے کیمیائی مرکبات بنانے والی دنیا کی دوسری بڑی کمپنی بن گئی۔

اب سوچیں، مسٹر چو اگر اس کیمیکل کا کھوج نہ لگاتے اس کے استعمال کے لیے قابل لوگوں پر سرمایہ کاری نہ کرتے، اس کا استعمال سیکھنے کیلئے پائیلٹ پلانٹ بنانے کی ہمت نہ کرتے تو شاید آج بھی وہ اپنی پرانی فیکٹری میں تھوڑی سی بہتری کے ساتھ بیٹھے ہوتے۔

کاروبار میں ہر وقت چوکنا رہنا، اپنے فراہم کنندگان، گاہک، مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ اور سب سے بڑھ کر نئے مواقع پر نظر رکھنا اور وقت آتے ہی بہادری سے اس کی طرف پیش قدمی کرنا ہی کامیاب کاروباری حکمت عملی ہے۔ یہی کاروباری ذہانت ہے۔

آخر میں عرض ہے کہ ہمارے نوجوان بھی یہ کیمیکل اور ایسے ہزاروں دیگر کیمیکلز بناکر دنیا بھر میں برآمد کرسکتے ہیں۔ جو کیمیکلز تانبے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ انہیں aldoxime۔ اور ketoxime کہتے ہیں۔ ان میں سے ایک β hydroxybenzophenone oxime، ہے۔ آرگینک کیمسٹری اور فارمیسی کے اساتذہ اور طلباء کو دعوت ہے کہ اس پر کام کریں۔ خود بھی خوشحال ہوں اور پاکستان کو بھی خوشحال کریں۔

Check Also

Ahal e Riwayat Aur Kar e Tajdeed

By Muhammad Irfan Nadeem