Herani Hai Ke Jati Nahi
حیرانی ہے کہ جاتی نہیں
بازار میں دستیاب کسی بھی ٹماٹر کی چٹنی کے اجزائے ترکیبی پڑھیں۔ ایک نام ضرور ملے گا۔ زینتھین گم، زینتھین گم ہلکے بھورے رنگ کا پاؤڈر ہوتا ہے جو بالعموم کھانے کی اشیاء کو گاڑھا کرنے کے کام آتا ہے۔ زینتھین گم بالکل اراروٹ کی طرز پر کام کرتا ہے۔ اس کا استعمال ہر قسم کی چٹنیوں، مائیونیز، کیک کی کریم، چکن نگٹس، سلاد ڈریسنگ، سکواش، ہر قسم کے مشروبات کے ساتھ ساتھ بہت سی ادویات میں بھی ہوتا ہے۔
برسبیلِ تذکرہ، کم قیمت ڈبہ بند جوسز جو خاص طور پر بچے بہت شوق سے پیتے ہیں ان میں چینی، زینتھین گم، مصنوعی ذائقہ اور کھانے کے رنگ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو ان سے بچنا چاہیے۔ اس قدر کثیرالاستعمال ہونے کی وجہ پاکستان میں زینتھین گم کا استعمال بھی بکثرت ہوتا ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں اس کی پیداوار صفر ہے لہٰذا سارے کی ساری چین، فرانس اور دیگر ممالک سے درآمد کرنا پڑتی ہے۔ چونکہ یہ خاصی مہنگی ہوتی ہے، معیار کے لحاظ سے پاکستان میں اس کی قیمت دو ہزار سے تین ہزار روپے فی کلو تک ہے۔ سو فی الحقیقت کروڑوں ڈالر کی سینکڑوں ٹن زینتھین گم سالانہ درآمد کی جاتی ہے۔
اس قدر بیش قیمت اور کثیرالاستعمال شے کی تیاری کے طریقہ کے متعلق جان کر آپ حیران بلکہ کسی قدر پریشان ہوں گے کہ یہ ضائع شدہ کھانے پر ایک قسم کے بیکٹیریا Xanthomonas campestris کے عمل سے بنتی ہے۔ پرانے روٹی، ڈبل روٹی کے ٹکڑے، زائدلامیعاد آلو کے چپس اور دلیہ وغیرہ، فصل کی کٹائی کے دوران کٹے پھٹے ضائع شدہ آلوؤں کو پانی میں گرائنڈ کرنے کے بعد ان میں زانتھا مونس کیمپیسٹرس کی جاگ لگائی جاتی ہے۔ مطلوبہ درجہ حرارت پر تین سے چار روز میں زینتھین گم تیار ہو جاتی ہے جس کو آئسوپروپائل الکحل کی مدد سے علیحدہ کر کے خشک کر لیا جاتا ہے۔
اس سے پہلے ہم سائٹرک ایسڈ اور کوجک ایسڈ کے متعلق بھی بتا چکے ہیں کہ یہ ایسے ہی خوردبینی جانداروں کے عمل سے بنائے جاتے ہیں۔ یہ عمل کوئی بہت زیادہ مشکل یا حیران کن نہیں۔ کیونکہ دودھ سے دہی بننا، آٹے کا خمیر ہونا، سرکہ اور شراب کا کشید کرنا بھی ایسے ہی عوامل ہیں جو خوردبینی جانداروں کی مدد سے انجام دیے جاتے ہیں اور سینکڑوں نہیں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ ان سے نہ صرف واقف بلکہ ان اوامر میں ماہر بھی ہیں۔
حیرانی ہے کہ جاتی نہیں۔ ہماری جامعات میں ہزاروں طلبا مائکروبیالوجی میں ایم ایس اور ایم فل کرتے ہیں۔ اساتذۂ کرام کی اکثریت باہر کی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر کے آئے ہوتے اس کے باوجود ہمارے طلباء ایسے کاموں کے سٹارٹ اپس کیوں نہیں کر رہے۔ کتنا آسان ہے کہ طلباء کے چھوٹے چھوٹے گروپس کو ایسے پراجیکٹس دیے جائیں۔ بظاہر یہ کام ایسا ہے کہ چند ماہ میں لیب میں بھرپور نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں، لیکن کسی وجہ سے اگر ایک گروپ اپنے عہد تدریس میں کام مکمل نہیں کر پاتا تو اگلے سیشن کے طلباء کو وہاں سے کام کا آغاز کر دینا چاہیے۔ کوئی وجہ نہیں چند سال میں ایسی بہت سی اشیاء پاکستان میں نہ بن رہی ہوں۔