Bukharat Ke Karishme
بخارات کے کرشمے
ہر ایک گھنٹے میں پچاس ارب ٹن پانی سطح سمندرسے آبی بخارات کی شکل میں اڑ جاتا ہے۔ یعنی ایک دن میں بارہ سو ارب ٹن پانی۔ اس پانی کا صرف دس فیصد یعنی ایک سو بیس ارب ٹن پانی ہواؤں کے دوش پر ہوتا ہوا بادلوں یا بخارات کی شکل میں خشکی پر آتا ہے باقی سارا واپس سمندر میں گر جاتا ہے۔
سمندر میں ساڑھے تین فیصد نمک ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے جہاں انسانوں اور جانوروں کو نقصان پہنچانے والی خوردبینی حیات اس میں نہیں پنپ سکتی وہیں پر یہ اس کی وجہ سے چوبیس گھنٹوں میں بیالیس ارب ٹن پانی کم آبی بخارات کی شکل میں ڈھلتا ہے۔ یعنی روزانہ ساڑھے چار ارب ٹن پانی کم ہمارے خشکی کے حصہ میں داخل ہوتا ہے۔ یہ اس قدر اہم توازن ہے کہ سمندر میں نمک نہ ہوتا تو خشکی پر ہر وقت سیلاب اس قدر تباہی مچا رہے ہوتے کہ یہاں شاید زندگی اس طرح ممکن ہی نہ ہوتی جس طرح اب ہے۔
اس کے باوجود کہ سمندری نمک کی وجہ سے روزانہ بیالیس ارب ٹن پانی کم بخارات کی صورت اختیار کرتا ہے، ہماری کرہ ہوائی میں قریب بیس کھرب ٹن پانی ہر وقت آبی بخارات کی شکل میں موجود رہتا ہے۔ یہ تو آپ کے علم میں ہوگا ہی کرہ ہوائی اوسطاً تیرہ کلومیٹر زمین سے اوپر والی فضا ہے، جو خط استو پر قریب اٹھارہ کلومیٹر اور قطبین پر قریب چھ کلو میٹر ہوتی ہے۔
سمندر کے علاوہ ندیاں، نالے دریا، جھیلیں اور دلدلی علاقے بھی پانی کی تبخیر کا باعث بنتے ہوئے پانی کو بخارات کی صورت پانی کو فضاؤں میں بھیجتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ درخت آبی بخارات پیدا کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ جتنا پانی درخت زمین سے کھینچتے ہیں اس کا پچانوے فیصد بخارات کی شکل میں ہوا کو لوٹا دیتے ہیں صرف پانچ فیصد خود استعمال کرتے ہیں۔ یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ مکئی کا ایک پودا روزانہ بیس کلو گرام پانی بخارات کی شکل میں تبدیل کرتا ہے جبکہ برگد کا ایک درخت لگ بھگ ایک ٹن پانی۔
درختوں میں فوٹوسینتھیسز کا عمل ہوتا ہے جو ان کیلئے خوراک پیدا کرتا ہے۔ اس عمل کےلیے درختوں کو کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس درکار ہوتی ہے۔ جب کاربن ڈائی آکسائیڈ کے حصول کیلئے پتوں میں موجود چھوٹے چھوٹے در سٹومیٹا کھلتے ہیں تو پانی وہاں سے بخارات کی صورت ہوا میں شامل ہوجاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ایک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مالیکیول کے بدلے دوسو مالیکیول پانی بخارات بنتا ہے۔
قدرت کی صناعی دیکھیں کہ سارا بخارات کا عمل سطح زمین کے قریب ہورہا ہوتا ہے۔ اور سطح زمین پر ہی سورج کی روشنی پڑ رہی ہوتی ہے۔ جس سے ہوا گرم بھی ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ بخارات سمیٹ لیتی ہے۔ اب بخارات والی ہوا، خشک ہوا کی نسبت ہلکی ہوجاتی ہے تو اوپر کو اٹھتی ہے۔ اوپر والی بھاری خشک ہوا نیچے آجاتی۔ اوپر جاتی جاتی ہوا جب زمین سے ایک کلومیٹر دور پہنچتی ہے تو وہاں درجہ حرارت نقطہ انجماد کے قریب یا اس سے کم ہوتا ہے۔ جس کے باعث یہ بخارات سے لدی ہوا بادلوں کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ یہی بادل پھر ساری بارش، آب پاشی اور برف باری کا سبب بنتے ہیں جس کی افادیت بلکہ ناگزیر یت سےہم سب آگاہ ہیں۔ لیکن ان بخارات کا ایک اور بھی بہت بڑا فائدہ ہے جس سے بہت کم لوگ آگاہ ہوں گے۔
سورج زمین پر سترہ سو چالیس کھرب کلو جول توانائی ہر سیکنڈ میں نچھاور کرتا ہے۔ ایک کلو جول وہ توانائی ہے جو قریب ایک پاؤ پانی کو ایک ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم کرنے کیلئے درکار ہے۔ پانی کے بخارات کو ایک ڈگری تک گرم کرنے کیلئے جو توانائی درکار ہوتی ہے وہ ہمارے ماحول میں موجود دوسری عام اشیاء جیس مٹی، لوہا تانبہ اور سلور وغیرہ سب سے کئی گنا زیادہ ہے۔
جب سورج کی شعاعیں زمین سے ٹکراکر منعکس ہوتی ہیں تو تقریباً تیس فیصد تو کرہ ہوائی کے باہر کی فضاؤں میں بکھر جاتی ہیں باقی ستر فیصد انہیں پانی کے بخارات میں جذب ہوجاتی ہے۔ اگر ہماری فضاؤں میں بخارات نہ ہوتے تو سورج کی اسی روشنی کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت دن کو دوسو ڈگری سینٹی گریڈ ہوجاتا اور رات میں کم از کم منفی سو ڈگری سینٹی گریڈ۔ کیونکہ یہی پانی کے بخارات دن میں جو توانائی جذب کرتے رات بھر وہ ہمیں لوٹاتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے درجہ حرارت پر دس پندرہ ڈگری سے زیادہ کا فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے قریب ترین سیارہ عطارد ہے جس پر پانی کے بخارات نہیں۔ اس کا درجہ حرارت دن میں سواچار سو ڈگری سینٹی گریڈ اور رات میں منفی ایک سو اسی ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔۔ تو پھر کیوں نہ ہم چلتے پھرتے، کھاتے پیتے ہر حال میں کہیں۔۔
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ