Azmaish Shart Hai
آزمائش شرط ہے
یہ تو ہم جانتے ہیں کہ چاہے غضب کی گرمی ہو یا بلا کی سردی، کسی بھی صحت مند انسانی جسم کا درجہ حرارت سینتیس درجہ سینٹی گریڈ ہی رہتا ہے۔ دوسری طرف گرمیوں میں لاہور سے زمین سے سے نکلنے والے پانی کا درجہ حرارت اٹھائیس درجہ سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ جب ہم گرمیوں میں اس پانی سے نہاتے ہیں تو ہمیں فرحت محسوس ہوتی ہے۔
لیکن سردیوں میں انسانی جسم کا درجہ حرارت تو وہی ہوتا ہے۔۔ سینتیس درجہ حرارت مگر تازہ زمینی پانی سے نہانے کے تصور سے ہی جھرجھری آجاتی ہے۔ گیزر چلائے جاتے ہیں، پانی گرم کیا جاتا ہے۔ چالیس، پینتالیس اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ درجہ حرارت پر نہایا جاتا ہے۔ حالانکہ جسم کے درجہ حرارت کے لحاظ سے اسے اصولی طور پر اٹھائیس درجہ حرارت والے پانی سے نہانے پر ویسی ہی فرحت ملنی چاہیے جیسی گرمیوں میں ملتی ہے۔
اور اس سارے عمل میں مزے کی بات یہ ہے کہ۔ سردیوں میں بھی زمینی تازہ پانی کا درجہ حرارت وہی ہوتا ہے اٹھائیس درجہ حرارت۔۔ کیونکہ زمینی پانی کا درجہ حرارت سارا سال ایک سا ہی رہتا ہے۔ بس پمپ سے نل۔ کے ذریعے ہم تک پہنچے میں ایک یا دو درجہ کا فرق پڑسکتا ہے۔ یعنی سردیوں میں تازہ پانی ستائیس درجہ تک ہم پہنچ سکتا ہے۔ اور ایک درجہ حرارت کی تفریق انسانی جسم اچھے سے نہیں کرسکتا۔ گویا اعداد وشمار کی رو سے سردیوں اور گرمیوں میں تازہ پانی سے نہانا بالکل ایک سا ہی عمل ہے۔۔ تو پھر فرق کیا ہے ہم سردیوں میں تازہ پانی سے نہانے کی جسارت کیوں نہیں کرپاتے،۔
اس کا جواب ہے انسانی نفسیات،۔ ہمارے ذہن اور جسم کا گٹھ جوڑ خود کو ہر وقت زیادہ سے زیادہ حالت آرام میں رکھنا چاہتا ہے۔ ذہن نےخود سے ہی حقائق کے خلاف یہ تصور پختہ کرلیا ہے کہ سردیوں میں گرم پانی ناگزیر ہے ورنہ جسم سردی سے بیمار پڑ جائے گا۔ اور ہم ہمیشہ سے تسلیم کیے بیٹھے ہیں، لیکن جب ہم نے اعدادوشمار کی روشنی میں ثابت کیا نہیں بھائی تم ڈرامہ کررہے ہو باہری درجہ حرارت کے کم یا زیادہ ہونے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا دونوں صورتوں میں جب پانی اور جسم کا درجہ حرارت برابر ہے تو جسم کا ردعمل بھی ایک سا ہونا چاہیے
تب ذہن نے مشروط آمادگی ظاہر کی۔ ہم نے تجربہ کیا۔ ردعمل واقعی غیرمتوقع نہیں تھا ہمیں نہ بہت زیادہ سردی لگی نہ ہم بیمار ہوئے۔ پھر دوسری بار پھر تیسری بار، اب دہائیوں سے حقیقت کے برعکس تن آسانی کے مفروضہ پر قائم ایک غلط تصور ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکا ہے۔ اور ہم سالہا سال سے سردیوں میں تازہ زمینی پانی سے بنا دقت نہاتے ہیں بلکہ سکون محسوس کرتے ہیں۔
یہ صرف ایک مثال ہے ہمارا ذہن جسم کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے ایسے بہت سے تن آسانی کے داؤ ہم پر مسلط کرتا رہتا ہے۔ اگر ہمیں منطقی یا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کرنا آتا ہو اور اعتماد کے ساتھ اس پر عملدرآمد کے اہل ہوں تو بہت سے بے مقصد غیرضروری الجھاؤ سے بچا جاسکتا ہے۔ کام کی رفتار وقت کی رفتار سے ہم آہنگ ہو سکتی ہے۔ "مجھ سے یہ نہ ہوپائے گا" یا "میں یہ نہیں کرسکتا" جیسے سپیڈ بریکر ختم ہوسکتے ہیں، آپ آزما کر دیکھ لیجیے۔۔