Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Al Zariyat

Al Zariyat

الذاریات

دنیائے نباتات کا آٹھواں حصہ یعنی کائنات میں بارہ فیصد پودے ایسے ہیں جن کے پھولوں میں نہ مٹھاس ہوتی ہے جو شہد کی مکھیوں اوردوسرے حشرات کو اپنی جانب متوجہ کرے، نہ ان کے پھول اس قدر خوشبودار یا دیدہ زیب ہی ہوتے ہیں کہ جن کی رعنائی سے متاثر ہو کر وہ ان پر بیٹھیں ۔ لہذا ان پودوں کی تمام تر زیرگی (pollination) ہواؤں کے رہینِ منت ہے۔

ان پودوں کے اربوں پولن گرین ہواؤں میں منتشر ہوجاتے ہیں جو اپنے یا اپنی ہی جنس کے دوسرے پودوں کے پھولوں میں منتقل ہوکر ان کی پیداوار کا باعث بنتے ہیں ۔ ان بارہ فیصد میں گندم، مکئی، چاول، جو، جوی، اخروٹ، پستہ اور چلغوزہ جیسی اہم فصلیں شامل ہیں ۔

ہواؤں سے بجلی بنانے والی پون چکیاں دنیا بھر میں توانائی فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ ہیں ۔ دنیا میں استعمال ہونے والی کل بجلی کا قریب بیسواں حصہ پون چکیوں سے آتا ہے۔ ڈنمارک اپنی کل بجلی کا اکتالیس فیصد پون چکیوں سے حاصل کرتا ہے۔جبکہ آئرلینڈ اٹھائیس فیصد اور جرمنی اکیس فیصد بجلی۔ دنیا بھر میں کل 650000 میگاواٹ بجلی پون چکیوں سے حاصل ہوتی ہے۔ سال 2020 میں چین نے 480 ٹیراواٹ آور توانائی ہواؤں سے حاصل کی۔ جس کی مالیت چین میں بجلی کے نرخ کے حساب سے دوسودس ارب ڈالر بنتی ہے۔ پاکستان کے نرخ کے حساب کیلئے تین سے ضرب دے لیجیے۔

روزانہ بارہ سو ارب ٹن پانی سطح سمندرسے آبی بخارات کی شکل تبدیل ہو کر ہواؤں میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ جس کا دس فیصد یعنی ایک سو بیس ارب ٹن پانی انہیں ہواؤں کے دوش پر ہوتا ہوا خشکی پر پہنچ جاتا ہے۔

چونکہ سطح زمین کا درجہ حرارت ایک درجہ بڑھانے کے لئے جو توانائی درکار ہوتی ہے، سطح آب کیلئے ایک درجہ بڑھانے کے لئے اس سے دوگنا توانائی صرف ہوتی ہے۔ اس لیے گرمیوں میں جب شدید گرمی پڑتی ہے تو سمندر کا درجہ حرارت اس رفتار سے نہیں بڑھتا جس رفتار سے زمین کا درجہ حرارت بڑھتا ہے۔ اس لیے سطح زمین پر موجود ہوائیں نسبتاً زیادہ تیزی سے گرم ہوکر اوپر کی طرف اٹھتی ہے۔ جس سے پیدا ہونے والے کم دباؤ کی وجہ سے سمندر سے بخارات سے لدی ہوائیں خشکی پر داخل ہوتی ہیں اور خوب بارشیں برساتی ہیں ۔ اس نظام کو مون سون کہتے ہیں ۔

مون سون اور اس کے علاوہ سال بھر میں ہونے والی بارشوں کا دارومدار ہواؤں کے اسی نظام پر ہی ہے۔ اس کے علاوہ پہاڑوں پر پڑنے والی ساری برف، جو فی الحقیقت کرہ ارض کے لیے ایک بہت بڑے یو پی ایس یا انرجی ریزروائر کا فریضہ سرانجام دیتی ہے کیونکہ یہ توانائی اور پانی، برف کی صورت اس وقت ذخیرہ کرلیتی ہے جب انسانوں کو اس کی ضرورت کم سے کم اور دستیابی وافر ہوتی ہے۔ اور اس وقت مہیا کرتی ہے جب اس کی ضرورت بہت زیادہ اور دستیابی ضرورت سے کم ہوتی ہے، انہیں ہواؤں کے نظام کے بغیر اس کا تصور بھی محال ہے۔

بارشوں اور برف باری اور اس کے پگھلنے کے نظام سے زراعت کیلئے جو بوقت ضرورت پانی دستیاب ہوتا ہے اس کی افادیت تو اپنی جگہ ناگزیر ہےہی مگر دنیا بھر میں کل توانائی کا سولہ فیصد حصہ بھی انہیں پانیوں سے آتا ہے۔ پانی سے پیدا کی جانے والی پن بجلی، دنیا میں استعمال ہونے والی کل بجلی کا چھٹا حصہ ہے۔ اب آپ تصور کریں کہ اگر ہواؤں کا یہ نظام نہ ہوتا تو کرہ ارض پر کیا صورت ہوتی۔

ہواؤں کی اس قدر اہمیت بلکہ ناگزیریت کے سبب خالقِ کائنات بھی ان ہواؤں کی قسمیں کھاتے ہوئے ان کے کام بھی بتاتے جاتے ہیں ۔ دیکھیں سورۃ الذاریات کا آغاز ہوتا ہے

"قسم ہے (پولن) اڑا کر بکھیرنے والیوں کی، پھر (بخارات کا) بوجھ اٹھانے والیوں کی، پھر نرمی سے چلنے والیوں کی، پھر کام کی تقسیم کرنے والیوں کی۔

"تو پھر کل صبح کی سیر کے دوران جب باد صبا آپ کی زلفوں سے اٹھکھیلیاں کرے تو کہیے گا۔

رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari