Kya Kaptan Bane Ga Oxford Ka Sultan
کیا کپتان بنے گا آکسفورڈ کا سلطان
دنیاکی سرفہرست یونیورسٹیوں میں آکسفورڈ پہلے یا دوسرے نمبر پر موجود رہی ہے اور درجہ بندی کے اتار چڑھائو میں ہمیشہ ٹاپ 10 میں سے ایک رہتی ہے۔ آکسفورڈ دریائے آکس کے کنارے، انگلستان کا ایک شہر ہے۔ اس کے معنی (دریائے آکس کا گھاٹ) کے ہیں۔ اس جگہ انگلستان کا مشہور اور قدیم دار العلوم واقع ہے۔
ان دنوں آکسفورڈ یونیورسٹی کے نئے چانسلر بننے کی ریس کا آغاز ہو چکا ہے۔ چانسلر یونیورسٹی کے پروفائل کو بڑھاتا ہے اور دوسرے تعلیمی اداروں، حکومتوں اور عالمی تنظیموں کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیتا ہے۔ چانسلر قومی اور بین الاقو امی سطح پر عوامی اور سرکاری تقریبات میں بھی یونیورسٹی کی نمائندگی کرتا ہے۔ چانسلر اپنے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے سٹرٹیجک معاملات پر مشورہ دے سکتا ہے۔ یونیورسٹی کی سمت اور ترجیحات پر چانسلر کا ایک اہم اثر ہوتا ہے حالانکہ وہ عام طور پر معمول کے انتظامی کاموں میں مشغول نہیں ہوتا۔ یونیورسٹی کی روایات کے تحفظ اور اس کی دیرینہ اقدار اور رسوم و رواج کو برقرار رکھنے کو یقینی بنانے میں بھی چانسلر کردار ادا کرتا ہے۔ وہ یونیورسٹی کے قوانین اور ضوابط کو برقرار رکھنے میں بھی شامل ہوتا ہے۔
چانسلر کی اس ریس میں ہمارا کپتان بھی حصہ لینے جارہا ہیں۔ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے بانی عمران خان ایک نئے انتخابات میں حصہ لینے جا رہے ہیں لیکن یہ الیکشن سیاسی عہدے کے لیے نہیں بلکہ ایک یونیورسٹی کے چانسلر کا ہے۔
اگرچہ ایسی خبریں کافی دیر سے گردش میں تھیں کہ عمران خان آکسفرڈ چانسلر کے انتخاب میں حصہ لینے والے ہیں تاہم باقاعدہ طور پر ان کی جانب سے بطور امیدوار درخواست مقررہ مدت کے آخری دن 18 اگست کو جمع کروائی گئی جس کا اعلان عمران خان کے مشیر زلفی بخاری نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کیا۔
زلفی بخاری کے مطابق عمران خان کی ہدایات کے مطابق آکسفرڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے انتخاب کے لیے ان کی درخواست جمع کروا دی گئی ہے۔
(عمران خان) ماضی میں بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے چانسلر رہ چکے ہیں اور انھوں نے یہ اہم ذمہ داری بڑی دیانت داری سے نبھائی۔ لہٰذا وہ اس منصب کے لیے سب سے زیادہ اہل شخص ہیں۔ ان کے کیس ختم ہو رہے ہیں اور اگر وہ انتخابات جیت جاتے ہیں تو وہ انشاء اللہ دسمبر تک ذاتی طور پر ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔۔
تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان کے اس فیصلے کے پیچھےکے مقصد کی نشان دہی نہیں کی گئی لیکن تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر عمران خان منتخب ہو جاتے ہیں تو یہ اہم پیش رفت ہوگی جس کے سیاسی اور سفارتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اس عہدے پر کامیاب امیدوار کی تقرری 10 سال کے لیے ہوگی تاہم یہ ایک سیریمونیئل، یعنی اعزازی منصب ہے، یعنی تنخواہ اور مراعات نہیں ہوتے لیکن چانسلر پر کسی طرح کی انتظامی ذمہ داری بھی نہیں ہوتی۔
اہم بات یہ ہے کہ آکسفرڈ چانسلر کے لیے برطانیہ میں رہنا ضروری نہیں البتہ تمام اہم تقریبات میں شرکت لازمی ہے جس کے لیے سفری اخراجات یونیورسٹی ادا کرتی ہے۔
نئے چانسلر کے انتخاب کے لیے یونیورسٹی کی کونسل چانسلر الیکشن کمیٹی، تشکیل دیتی ہے جس کا کام قواعد و ضوابط کے مطابق انتخابی عمل کا انعقاد اور نگرانی ہوتا ہے اور وہ کسی طرح بھی اس عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کرتی۔
عمران خان کے لیے اس مقابلے میں حصہ لینا ووٹنگ سسٹم میں ایک حالیہ ترمیم کے بعد ممکن ہوا جس کے مطابق یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ اور عملے کے موجودہ اور سابقہ ارکان اب اپنا ووٹ آن لائن دے سکیں گے۔ اس حلقۂ انتخاب کو کونووکیشن، کہتے ہیں۔ اس سے پہلے امیدواروں اور ووٹروں کے لیے کونووکیشن میں ذاتی طور پر حاضری لازمی ہوا کرتی تھی۔
یونیورسٹی کے مطابق اب دنیا بھر سے ڈھائی لاکھ سے زیادہ اہل ووٹر چانسلر کے انتخاب میں حصہ لے سکیں گے۔ انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں کی حتمی فہرست اکتوبر میں شائع کی جائے گی، اور ووٹنگ کا عمل 28 اکتوبر سے شروع ہوگا۔
10 سے کم امیدواروں کی صورت میں انتخاب کا صرف ایک دور ہوگا۔ امیدواروں کی تعداد زیادہ ہونے کی صورت میں انتخابی عمل کا دوسرا راؤنڈ 18 نومبر کو شروع ہوگا۔
امریکہ اور برطانیہ سمیت مغربی ممالک کی حکومتوں نے عمران خان کی گرفتاری اور ان کے مقدمات سے متعلق زیادہ توجہ نہیں دی ہے۔ ان کی رائے میں عمران خان کا بھی بنیادی مقصد بظاہر یہی لگتا ہے کہ وہ اس طریقے سے سیاسی سکورنگ کرنا چاہتے ہیں اور سب کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ جیل میں رہ کر بھی کتنے مقبول ہیں کہ دنیا کی ایک بہترین یورنیورسٹی نے انھیں اپنا چانسلر چنا ہے۔
تاہم ان کے مطابق ابھی تو یہ بھی دیکھنا ہے کہ آکسفرڈ کے اصول و ضوابط اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ کوئی سزا یافتہ شخص، اس بحث سے ہٹ کر کہ یہ سزا درست انداز سے ہوئی یا نہیں، اس کا چانسلر بن سکے؟
اگر عمران خان چانسلر بن جاتے ہیں جو کہ انشاءاللہ عین ممکن ہے تو پاکستان کے ساتھ ساتھ پورے ایشیا کے لیے یہ فخر سمجھا جائے گا جس کا اظہار بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور سابق کرکٹر کپل دیو بھی کر چکے ہیں۔