Hukumat Aur Supreme Court Aamne Samne
حکومت اور سپریم کورٹ آمنے سامنے
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سپریم کورٹ اور حکومت ایک دوسرے کے سامنے آتے رہے ہیں۔ حکومت اور سپریم کورٹ کی لڑائی میں اکثر پلڑا حکومت کا بھاری رہا، کیونکہ حکومت نے جب بھی سپریم کورٹ کے سامنے کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا، اسے ایگزیکٹیو اور اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل رہی۔ عدالتیں تب تک مضبوط ہوتی ہیں، جب تک ان کے احکامات پر عملداری کیلئے ایگزیکٹیو ان کے ساتھ کھڑی ہو۔ 2009ء کی وکلاء تحریک کی کامیابی کے بعد کسی سیاسی حکومت نے سپریم کورٹ کے سامنے آنے کی جرأت نہیں کی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سپریم کورٹ کا غیر متنازعہ ہونا تھا۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے متعدد فیصلوں سے پیپلز پارٹی کو شدید اختلاف رہا مگر افتخار چوہدری کے ساتھی ججز کی انکو مکمل سپورٹ نے ہمیشہ افتخار چوہدری کے قدم سپریم کورٹ میں جمائے رکھے۔ جس وقت سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے یوسف رضا گیلانی کو بطور وزیراعظم نااہل کیا تب سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس تصدیق جیلانی تھے۔ جسٹس تصدق جیلانی اور یوسف رضا گیلانی انتہائی قریبی رشتہ دار تھے۔
جسٹس تصدق جیلانی نے یوسف رضا گیلانی کو نااہلی سے بچانے کی درپردہ بھرپور کوشش کی مگر ناکام رہے۔ کچھ معاملات کا خاکسار عینی شاہد ہے، لیکن اس سب کے باوجود افتخار محمد چوہدری کے اپنے ساتھی ججز کے ساتھ تعلق متاثر نہیں ہوئے اور ملک کے منتخب وزیراعظم کو نااہل کرنے کے باوجود سپریم کورٹ متنازعہ نہ بن سکی۔ اسی طرح سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ کے ججز نے نااہل کیا، بہت سے ساتھی ججز نے اندرون خانہ اس فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا، مگر سپریم کورٹ میں اختلافات پیدا نہ کیے جا سکے۔
لیکن یہ پہلی مرتبہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک واضح تقسیم نظر آ رہی ہے۔ حکومت چیف جسٹس سمیت جن ججز پر اعتراض کر رہی ہے، انہی جج صاحبان پر ان کے اپنے ساتھی ججز بھی عدم اعتماد کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ اس تقسیم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی طرح سے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ۔ یہ تینوں معزز جج صاحبان ایک ہی چیمبر سے ہیں۔ انہوں نے بھی الیکشن کے حوالے سے ازخود نوٹس پر شدید اعتراض کیا ہے۔
جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال مندوخیل نے تو تین روز قبل خود کو یکے بعد دیگرے اس بنچ سے ہی علیحدہ کر لیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے علاوہ بھی سپریم کورٹ کے ججز کی اکثریت کے تین رکنی بنچ کی سماعت پر شدید تحفظات برقرار ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں نے ہی آج حکومت کو اتنا حوصلہ دیا ہے کہ وہ چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے تین رکنی بنچ کے سامنے ڈٹ گئی ہے۔ سپریم کورٹ میں زیر سماعت توہین عدالت کی کارروائی پر حکومتی وزراء نظیر صدیقی کا شعر سناتے نظر آتے ہیں کہ
ہے فیصلہ خود باعثِ توہین عدالت
کچھ کہہ کے میں توہین عدالت نہیں کرتا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان وطن عزیز کا سب سے معزز اور غیر متنازعہ ادارہ تھا۔ اس ادارے کا غیر متنازعہ ہونا ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ ماضی میں جب سپریم کورٹ نے دو وزرائے اعظم کو فارغ کیا، تب کسی بنچ سے اس وقت کی حکومت کا باضابطہ کوئی تنازع نہیں تھا۔ آج اگر چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کوئی فیصلہ کیا تو شاید حکومت اس فیصلے کو تسلیم نہ کرے۔ اگر ایسا ہوا تو اس سے ملک کا بہت نقصان ہوگا۔
سپریم کورٹ کے ان تین معزز جج صاحبان نے اگر اپنے ادارے کا بھرم توڑا تو شاید پھر آنے والے کئی برس یہ بھرم دوبارہ بحال نہیں ہو سکے گا۔ پاکستان کی اکثریتی سیاسی جماعتیں اس معاملے پر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ 1996ء میں اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ایک فیصلہ دیا، جس میں انہوں نے ایگزیکٹیو اور عدلیہ کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی، انہوں نے کہا کہ Excutive & Judiciary are Separate۔
اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے کے بعد ایگزیکٹیو تو اپنی حدود میں چلی گئی اور عدالتی اختیارات سے دستبردار ہوگئی، جس کی وجہ سے پورے ملک میں مجسٹریسی نظام کا بوریا بستر گول کر دیا گیا، جس کی قیمت سانحہ ماڈل ٹاؤن و دیگر واقعات کی صورت میں ادا کرنی پڑی۔ مگر جوڈیشری کی ایگزیکٹیو کے معاملات میں مداخلت مسلسل جاری رہی۔ اسی مداخلت کی وجہ سے سسٹم کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ آج ضرورت ہے کہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کو مضبوط کریں۔ جو ادارہ بھی اپنی حدود سے تجاوز کرے گا، اس سے شاید چند افراد کا تو اتنا نقصان نہ ہو مگر ادارے کی مضبوطی بری طرح متاثر ہوگی۔