Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hira Umair/
  4. Jagirdar

Jagirdar

جاگیردار

حاکم علی شاہ میرے تایا گاؤں کے جاگیر دار تھے۔ بابا سائیں بتاتے ہیں کے یہ جاگیر داری اُن کے آباؤ اجداد کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ یہی وجہ تھی کے تایا حاکم اپنے نام کی طرح ہی پورے گاؤں پر حکومت کرتے تھے۔ خاندان کی برسوں پرانی روایات نے اُن کو آج بھی باندھے رکھا تھا۔ گاؤں میں رہنے والا ہر شخص تایا حاکم سے خوف کھاتا تھا۔ تایا حاکم کی دو بیویاں تھیں جن میں سے پہلی بیوی کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہو چکا تھا۔

پہلی بیوی سے کوئی اولاد نہ تھی جبکہ دوسری بیوی سے اُن کے ہاں دو اولادیں ہوئیں، شاہ میر شاہ کے بعد اُن کے ہاں بیٹی ہوئی جس کا نام اُنہوں نے ملکہ رکھا۔ تایا حاکم کی دونوں بیویاں خاندان سے ہی تھیں جن کا نکاح کم عمری میں ہی اُن کے والد یعنی میرے دادا جان نے کر دیا تھا۔ بابا سائیں اور تایا حاکم میں کم و بیش پندرہ سال کا فرق تھا۔ دادا جان کے انتقال کے وقت بابا سائیں بہت چھوٹے تھے۔

دادا جان کے گزر جانے کے بعد جاگیر داری کے تخت پر تایا حاکم کو نشست ملی۔ تایا حاکم، بابا سائیں سے بہت محبت کرتے تھے یہاں تک کے اُن کا شوق دیکھ کر اُنہوں نے شہر کے نامور تعلیمی ادارے میں اُن کا داخلہ کروا دیا اور یوں وہ گاؤں سے دور شہر میں رہنے لگے۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے تک بابا سائیں کو اب شہر میں ہی رہنا تھا۔ جیسے جیسے بابا سائیں شعور کی منزلیں طے کر رہے تھے اُنہیں اپنے خاندان کی دقیانوسی روایات اور رسم و رواج سے اختلاف ہونے لگا تھا۔

تایا حاکم اور بابا سائیں کے درمیان پھوٹ اس دن پڑی جب وہ گاؤں ایک ہاتھ میں ڈگری لیے تو دوسرے ہاتھ میں میری بی جان کا ہاتھ تھامے حویلی میں داخل ہوۓ۔ اُس دن تایا حاکم نے ایک طوفان برپا کر دیا۔ اُن کا ایسا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں خاندان سے باہر نہ تو لڑکی بیاہی جاتی ہے اور نہ ہی غیر خاندان کی لڑکی لی جاتی ہے۔ تم ابھی کے ابھی اس عورت کو طلاق دو ورنہ تمہارا اس خاندان سے، یہاں کے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں رہے گا اور نہ ہی تم وراثت کے حقدار ہو گے۔

بابا سائیں نے لاکھ سمجھایا، پیروں میں گرے، اُن کو حقیقت کا آئینہ دکھایا کہ جو غلطیاں ہمارے بڑوں نے کیں وہ دوبارہ نہ دوہرائیں مگر وہ ایک نہ مانے۔ بی جان کو اُنہوں نے قید خانے میں ڈال دیا اور بابا سائیں کو بھی کئی دنوں تک کمرے میں بند رکھا۔ بابا سائیں نے بہت مشکلوں کے بعد وہاں سے پرانے وفادار ملازم کی مدد سے رہائی حاصل کی اور رات کے اندھیرے میں سب سے چُھپ کے گاؤں سے نکل گۓ۔ گاؤں سے نکلنے کے بعد بابا سائیں نے کبھی پیچھے مُڑ کر دیکھنا گوارا نہ کیا۔

بابا سائیں اسلام آباد آ گۓ اور بی جان کے ساتھ اُنہوں نے نئی زندگی کی شروعات کی۔ میں بابا سائیں کی پہلی اولاد ہوں میرا نام مدیحہ ہے اور میرے بعد چھوٹا بھائی عباد ہے۔ بابا سائیں نے ہمیشہ ہم دونوں بہن بھائیوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا، ہم سے ماضی کا کبھی ذکر نہیں کیا کہ اُن کی زندگی میں ہم سے پہلے کیا کچھ ہو چکا تھا نہ ہی ہم تایا حاکم اور گاؤں کے بارے میں کچھ جانتے تھے۔

بابا سائیں نے ہمیں ہر طرح کی آزادی دی۔ بی جان نے ہماری تربیت کچھ یوں کی تھی کہ بابا سائیں کو اُن کی پرورش اور تربیت پر پورا بھروسہ تھا۔ اُنہوں نے ہم دونوں بہن بھائیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ یونیورسٹی میں چار سال گزارے جانے کے باوجود میں نہیں جانتی تھی کے شاہ میر شاہ سے میری کوئی رشتہ داری ہے نہ تو کبھی ہمارے درمیان اتنی ملاقاتیں ہوئیں تھی۔ کیونکہ وہ مجھ سے سینئر تھا اور اُس کا اور میرا ڈپارٹمنٹ الگ تھا۔

لیکن اسی سال کے آخر میں جب یونیورسٹی کا ٹرپ گھومنے نادرن ایریاز کے لیے گیا تب شاہ میر اور میری باقائدہ طور پر پہلی ملاقات ہوئی تب نہ وہ جانتا تھا نہ میں کہ ہماری کوئی رشتہ داری ہے۔ ٹرپ پر ہماری دوستی ہو گئی اور اس کے بعد ہماری دوستی گہری ہوتی چلی گئی۔ اُس کی ڈگری اب مکمل ہو چکی تھی میں اُداس تھی کہ وہ اب یونیورسٹی نہیں آیا کرے گا۔

الوداعی پارٹی والے دن اُس نے مجھ سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ میں نے ہمیشہ سے شاہ میر کو ایک اچھا دوست ہی سمجھا تھا اس اچانک واردات کے لیے میں تیار نہ تھی۔ میں نے اُسے کوئی جواب نہیں دیا اور اُسے بس اتنا کہہ دیا کہ میری زندگی کے سارے فیصلوں کا اختیار میرے بابا سائیں اور بی جان کو ہے وہ جو بہتر سمجھیں گے وہی ہو گا۔ شاہ میر سے اس کے بعد میری کوئی بات نہ ہوئی۔

پھر ایک دن وہ اچانک ہی میری غیر موجودگی میں گھر آ گیا۔ بی جان نے تو اُسے اتنا نہیں دیکھا تھا مگر بابا سائیں کو اُس کے نقش بہت کچھ یاد دلا رہے تھے۔ بابا سائیں نے جب اُس سے اُس کے گھر والوں کے متعلق سوال و جواب پوچھے تب تمام رازوں سے پردہ اُٹھ گیا۔ بابا سائیں کی آنکھوں میں آنسو آ گۓ اور اُنہوں نے شاہ میر کو گلے لگا لیا۔ اور پھر شاہ میر کو سب بتایا کہ وہ اُس کے چچا ہیں اور پھر ماضی میں ہونے والے تمام باب اُس کے سامنے کھول کر رکھ دیے۔

شاہ میر کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں اُس کی چچا زاد کزن ہوں اتنا قریبی رشتہ ہوتے ہوۓ بھی ہم ہمیشہ انجان رہے تھے۔ بابا سائیں نے پھر شاہ میر سے تایا حاکم کے متعلق پوچھا تب شاہ میر نے پوری داستان سنائی کہ کس طرح جاگیر داری کے نشے نے اور پیسے کی چکا چوند نے اُس کے باپ کو برباد کر دیا۔ تایا حاکم کی دشمنی پڑوسی گاؤں کے قبیلے سے ہو گئی تھی جس کے نتیجے میں تایا حاکم نے کھیتوں کا پانی روک رکھا تھا اور شرط رکھی تھی کے جب تک وہ لوگ تایا حاکم کو اُن کی مانگی گئی رقم نہیں دیں گے وہ پانی اُن کے کھیتوں میں نہیں چھوڑیں گے۔

بس پھر اسی پانی کی جنگ میں اکثر و بیشتر کبھی پڑوسی قبیلے کے کسی فرد کا جھگڑا تایا حاکم کے کسی بندے سے ہوتا تو کبھی تایا حاکم کی طرف سے کاروائی ہوتی یوں یہ جھگڑا بڑھتا چلا گیا اور آخر میں ایک دن دشمن کے قبیلے نے رات کے پہر گُھس کر تایا حاکم کے ڈیرے پر اُنہیں قتل کر دیا۔ اُن دنوں میں شہر میں تھا مجھے ان سب باتوں کی کوئی خبر نہیں تھی۔ پھر میں نے اپنی اماں جی سے ساری داستان سنی آپ کا ذکر بھی سُنا کہ کس طرح میرے بابا سائیں نے آپ کو بے دخل کر دیا تھا۔

لیکن آپ کی طرح میں بھی ہمیشہ سے ان فرسودات کے خلاف تھا۔ بابا سائیں کے انتقال کے بعد ہم نے بھی گاؤں چھوڑ دیا اور یوں گاؤں کے لوگوں کو بھی اس جاگیر دارنہ نظام سے آزادی مل گئی۔ بابا سائیں شاہ میر کی باتیں سننے کے بعد صوفے پر ڈھے سے گۓ باپ جیسے بھائی کے قتل کی خبر نے اُن کو روہانساں کر دیا تھا۔ جس وقت میں گھر پہنچی تو یہی منظر رونما تھا شاہ میر بابا سائیں کو دلاسہ دے رہا تھا۔

مجھے شاہ میر کی یوں اچانک موجودگی اور پھر یہ منظر دیکھ کر کچھ سمجھ نہیں آیا۔ پھر اس کے بعد جب مجھے ساری کہانی کا علم ہوا تو مجھے بھی بے انتہا افسوس ہوا۔ لیکن اس حسین اتفاق پر دل بہت خوش تھا کہ شاہ میر سے میرا خونی رشتہ ہے۔ اس تمام واقع کے بعد شاہ میر کے گھر والے ہمارے گھر آۓ تھے، میں اور عباد پہلی بار سب سے مل رہے تھے۔ ملکہ تائی امی سے مل کر ایک انوکھی سی خوشی ہوئی۔

بابا سائیں سے تائی امی نے شاہ میر کے لیے میرا ہاتھ مانگا تو سب سے پہلے بابا سائیں نے میری جانب دیکھا یوں کہ جو میری بیٹی کی مرضی وہ میری مرضی۔ پھر سب کی دلی رضا مندی سے بابا سائیں نے اس رشتے کے لیے ہاں کر دی۔ بابا سائیں نے گاؤں کا دورہ بھی کیا۔ تایا حاکم کی قبر پر فاتحہ خوانی بھی کی اور پھر دوبارہ شہر لوٹ آۓ۔ آزادی کا مطلب ہے کہ ہر فرد کو ایک انفرادی حیثیت کے ساتھ آزادی ملے، جاگیر دارنہ نظام کو ہمارے ملک سے جڑ سے ختم ہونا چاہیے۔

آج بھی ہمارے معاشرے میں یہ جاگیر دارانہ نظام رائج ہے حالانکہ محمد علی جناحؒ نے تو ہمیں 14 اگست 1947 کو یہ وطن ہمارے ہاتھوں میں دے دیا تھا مگر لوگ آج بھی اس جاگیر دارنہ نظام کے بوجھ تلے غلام بنے ہوۓ ہیں۔ آزادی ہر ایک کا حق ہے کیونکہ ہم ایک آزاد ریاست کے لوگ ہیں۔ اور اس حق کو سلب کرنے والے لوگ یاد رکھیں کہ غرور و تکبر اور طاقت کا زور دکھانے والوں کا انجام پھر حاکم علی شاہ کی طرح ہی ہوتا ہے اور آخر میں وہ عبرت کا نشان بن جاتے ہیں۔

Check Also

Agle Janam Mohe Bitiya Na Keejo

By Amer Abbas