Taqdeer Kya Hai?
تقدیر کیاہے؟
سوال۔ تقدیر کیا ہے؟ اس کی اقسام کتنی ہیں؟ انسان کو تقدیر میں اللہ نے کتنا اختیار دیا ہے؟ تقدیر کے لفظ کا معانی قدرت یا فیصلہ یا ارادہ ہے اس لفظ کو استعمال انسان ان فیصلہ جات کیلئے کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے کر رکھے ہیں۔ تقدیر کو ہم تین اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلی قسم جس کا سو 100 فیصد اختیار یا انحصار اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پر ہے،دوسری قسم جس میں پچاس 50 فیصد اختیار اللہ تعالیٰ کا ہے اور پچاس 50 فیصد اختیار اللہ نے اپنی مخلوق کو دیا ہےاور تیسری قسم جس میں سو 100 فیصد اختیار اللہ نے مخلوق کو دیا ہے۔
قرآن مجید میں سورۃ یسین آیت نمبر بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور ہر چیز کو ہم نے روشن کتاب (لوح محفوظ) میں احاطہ کر رکھا ہے۔ سورہ الرعد آیت نمبر انتالیس، اللہ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہےمٹا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ثبت (لکھ ہوا رہنے) فرما دیتا ہےاور اسی کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) ہے۔ سورہ مومن آیت نمبر ساٹھ اور تمہارے رب نے فرمایا ہے تم لوگ مجھ سے دعا کیا کرو میں ضرور قبول کروں گابے شک جو لوگ میری بندگی سے سرکشی کرتے ہیں وہ عنقریب دوزخ میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔ ان آیات میں لکھنے سے مراد اللہ تعالیٰ کا علم لیا جائے گا لکھنے کا ذکر اللہ نے اس لیے کیا ہے کیونکہ لکھی ہوئی تحریر مٹتی یا ضائع نہیں ہوتی اسی طرح اللہ کا علم ابدی ہے اسے معلوم ہے کہ انسان کا مستقبل کیا ہے۔
اس جگہ ایک سوال ہے اگر اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا پھر اس جگہ سوال ہے انسان اپنے عمل کا زمہ دار کیسے ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے جس کام میں جتنے فیصد اختیار ہے اسی مناسبت سے اللہ تعالیٰ انسان سے پوچھے گا۔ اس کی وضاحت آگے آۓ گی۔
پہلی قسم جس میں سو فیصد اختیار اللہ تعالیٰ کا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ بندے سے یہ نہیں پوچھے گا تمہارے والدین کون تھے اور فلاں کیوں نہیں تھا۔ اسی کا دوسرا حصہ یہ ہے جس میں ایک مخلوق کو دوسری پر جزوی فضیلت دی گئی ہے لیکن اللہ کے پاس مکمل اختیار ہے جس کو دے مثلاً پرندہ اڑ سکتا ہے انسان نہیں مچھلی پانی میں زندہ رہ سکتی ہے انسان نہیں گزار سکتا اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ مخلوق سے سوال بھی نہیں پوچھے گا اس کا علم اللہ کو ہے اس کا ذکر اس نے سورہ یسین آیت نمبر بارہ میں کیا ہے۔ اس اصول کو اللہ تعالیٰ تبدیل نہیں کرتا لیکن کبھی کبھی اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو آزمانے کے لیے تبدیل کر دیتا ہے اس کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے بچایا۔
عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور بچا لیا یوسف علیہ السلام کو کنواں میں بچا لیا اور یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھا ان سب مثالوں کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔ انبیاء علیہم السلام کا ایمان سو فیصد کامل اور مکمل ہوتا ہے اس لیے ان کو آزمانے کے لیے اللہ نے بھی اپنا سو فیصد اختیار کو تبدیل کر دیا اور کسی بندے کے لیے نہ تبدیل کرے گا اس قانون کو جو کچھ بھی ہو جائے آگ ہمیشہ جلاۓ گئ یہ صرف ابراہیم علیہ السلام کے لیے تبدیل ہوا۔
دوسری قسم اس میں پچاس 50 فیصد اختیار بندے کو دیا ہے اور پچاس 50 فیصد اس نے خود رکھا ہے۔ اس کی مثال محنت ہے اس کے پاس کوشش کرنے کا اختیار ہے بیماری ہے آپ علاج کرا سکتے ہیں سمندر میں اگر کوئی گر گیا اس کے پاس اختیار ہے تیر سکتا ہے اس کی مثال دعا ہے لیکن جو بات وضاحت طلب ہے وہ یہ ہے محنت کا نتیجہ کیا ہوگا اللہ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے علاج کرانے کا نتیجہ تیرنے کا نتیجہ دعا کے قبول ہونے کا نتیجہ اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے۔ اس کے ذریعے وہ بندہ کو آزمائے گا علاج کرانے کے باوجود درست نہ ہو دعا قبول کر کے یا نہ کر کے آزمانا۔ مصیبتوں سے بچنے کے اذکار صبح اور شام اسی لیے ہیں تاکہ انسان اپنی کوششوں پوری کرے اور نتیجہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے پچاس فیصد اختیار بندے کے پاس ہے اسی لیے حدیث میں اذکار کی بہت اہمیت اور تاکید وفضیلت بیان ہوئی ہے۔
اگر کوئی دعا نہیں کرتا محنت اور علاج نہیں کراتا اور اللہ تعالیٰ پر الزام لگاتا ہے کہ میری تقدیر میں شفا نہیں تھی مجھے محنت کا نتیجہ نہیں ملا فیل ہو گیا دنیا کے کسی کام میں اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی پوچھے گا بندے تو نے دعا کی علاج کرایا اگر کوشش کی ہو گئی تو اللہ تعالیٰ اس بندے کو اجر دے گا وہ بندہ خوش ہو جائے گا قرآن مجید میں اس کا ذکر اس طرح ہے۔
کہہ دو اے میرے بندو جو ایمان لائےہو اپنے رب سے ڈرو ان کے لیے جنھوں نے اس دنیا میں نیکی کی ہے اچھا بدلہ ہے اور الله کی زمین کشادہ ہے بے شک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا (۱۰)۔ اس کا ذکر قرآن مجید میں سورۃ الرعد آیت نمبر انتالیس میں ہے مفہوم کچھ اس طرح ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے لکھ لیتا ہے۔
تیسری قسم اس میں مکمل 100سو فیصد اختیار اللہ نے بندے یہ مخلوق کو دیا ہے اور اس کا نتیجہ بھی بندے کو بتا دیا ہے اور ان کے بارے میں وضاحت سے سوال وجواب بھی ہوں گے۔ مثلاً اسکی بہترین مثال اللہ تعالیٰ کے احکام ہیں نماز قائم کرنا روزہ رکھنا اچھا کام یا برا کام کرنا نبی کی اطاعت کرنا مسلمان بھائی کے حقوق والدین کے حقوق وغیرہ ان سب کا نتیجہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے یا مخلوق کو بتا دیا ہے آخرت میں جنت یا جہنم ہے۔ اب سو فیصد بندہ کو اختیار ہے جس حکم پر عمل کرے۔ اللہ تعالیٰ اسی تقدیر کا زمہ دار انسان کو ٹھہراتا ہے جس کا اختیار بندہ کے پاس ہے اور اسی تقدیر کے بارے میں سوال بھی کرے گا۔
اب سورة العَنکبوت کی آیات کو پڑھیں انشاء اللہ آپ کو مکمل سمجھ آ جائے گی۔