NFC Award Kya Hai?
این ایف سی ایوارڈ کیا ہے؟
ہم جب کالج میں تھے تو ٹی وی پر اکثر سنتے تھے این ایف سی ایوارڈ کے بارے میں، ہم آپس میں اپنے دوستوں کیساتھ اکثر اس پر بحث کرتے تھے کہ شاید یہ این ایف سی ایوارڈ بھی دوسرے ایوارڈز کی طرح کوئی ایوارڈ ہوتا ہے۔
ہم اس کو نوبل پرائز کے ایوارڈ کی طرح سمجھتے تھے۔ جو لوگوں کو دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اکثر ٹاک شوز میں ان پر تنقید بھی کی جاتی تھی اور کچھ لوگ اس میں حصہ نہ ملنے پر افسوس کا اظہار بھی کر تے تھیں۔ تو سمجھ نہیں آتا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ ہے کیا اور یہ کس حساب سے ملتا ہے۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ ایوارڈ دوسرے ایوارڈز کی طرح ایوارڈ ہے ہی نہیں دراصل یہ ایک فارمولا کا نام ہے۔
اس فارمولے کے تحت حکومتی بجٹ کو تقسیم کیا جاتا ہے۔ حکومت عوام سے ٹیکسز کے ذریعے جو پیسہ اکٹھا کرتی ہے یعنی انکم ٹیکس، سیل ٹیکس اور ایسے بہت ساری چیزیں جن پہ ہم ٹیکس دیتے ہیں، اس سے جو پیسہ حکومت کی طرف اکٹھا ہوتا ہے اس پیسے کو واپس عوام میں تقسیم کرنے کے لیے جو فارمولا استعمال ہوتا ہے، اس کو این ایف سی ایوارڈ کہا جاتا ہے، یعنی نیشنل فائننس کمیشن ایوارڈ۔
پاکستان بننے سے پہلے برٹش قانون کا ایک الگ ایوارڈ تھا جس کا نام "نیمیر ایوارڈ" تھا۔ پھر پاکستان بننے کے بعد پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے ایک ایوارڈ متعارف کروایا جس کا نام "ریز مین ایوارڈ" تھا۔ پھر اس کا نام این ایف سی ایوارڈ ہوگیا۔ اب تک سات این ایف سی ایوارڈز ہو چکے ہیں۔
این ایف سی پہلا افیشل ایوارڈ ذوالفقار علی بھٹو کے دور 1974 میں دیا گیا۔ کانسٹیٹیوشن کے 160 ایکٹ کے مطابق اسکا کا دورانیہ پانچ سال ہوتا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کو صدر پاکستان اناؤنس کرتا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ ایک کمیشن ہوتا ہے، جسکا چیئرمین وفاقی وزیر خزانہ ہوتا ہے، اور اس کے علاوہ جو ممبرز ہوتے ہیں وہ ہر صوبے سے لیے جاتے ہیں۔
اس کے بعد آتا ہے این ایف سی ایوارڈ کے تقسیم کا فارمولا۔ اس کو دو طریقوں سے تقسیم کیا جاتا ہے، ایک کو ورٹیکل ڈسٹریبیوشن یعنی عمودی تقسیم اور دوسرے کو ہوریزنٹل ڈسٹریبیوشن یعنی افقی تقسیم کہا جاتا ہے۔
ورٹیکل تقسیم میں ٪42.5 فیصد فیڈرل یعنی وفاقی حکومت کے پاس جاتا ہے، جبکہ ٪57.5 فیصد صوبائی حکومتوں کے پاس جاتا ہے۔ یعنی مثال کے طور پر اگر پورے پاکستان کا بجٹ 100 روپے ہیں، تو 42.5 روپے وفاقی حکومت کے پاس، اور 57.5 روپے چار صوبوں میں تقسیم ہونگے۔
اب آتا ہے ہوریزنٹل ڈسٹریبیوشن یعنی افقی تقسیم۔ یہ تقسیم آبادی کی بنیاد پر رکھی گئی، کہ جس صوبے کی زیادہ آبادی ہوگی، اس کو زیادہ حصہ ملے گا، جس کی وجہ سے پنجاب کو ٪82 این ایف سی ایوارڈ میں حصہ ملتا تھا، کیونکہ پنجاب کی آبادی سارے صوبوں سے زیادہ تھی۔ جس کی وجہ سے خیبر پختون خواہ اور بلوچستان چونکہ بلوچستان میں آبادی کم ہے اور ایریا زیادہ ہے اور غربت بھی زیادہ ہے تو اس وجہ سے اس کو حصہ کم ملتا تھا اور پنجاب کو ہر این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کے لحاظ سے زیادہ حصہ ملتا تھا۔
پھر 2010 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس فارمولے میں رد و بدل کر دیا، اور چار نئے شرائط رکھ دئیے، جس میں سے پہلے نمبر پر آبادی، دوسرے نمبر پر ریوینیو جنریشن، تیسری نمبر پر غربت، اور چوتھی نمبر پر انورس پاپولیشن ڈینسٹی رکھا گیا۔
ایریا ڈینسٹی اس کو کہتے ہیں کہ ون اسکوائر کلومیٹر میں کتنے لوگ رہتے ہیں انورس ڈینسٹی اس کے الٹ ہوتا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ میں ان چار شرائط کے آنے کے بعد صرف آبادی کی بنیاد پر نہیں بلکہ غربت اور سب سے کم آبادی یعنی بلوچستان جس میں آبادی کم ہے لیکن ایریا زیادہ ہے ان کو بھی حصہ زیادہ ملنے لگا اور اس کا حصہ ٪3 فیصد سے جا کر ٪9 فیصد تک ہوگیا اور خیبر پختون خواہ کا بھی حصہ ٪13.3 سے ٪14 تک ہوگیا۔
خیبر پختون خواہ 2018 کے فاٹا مرجر کے بعد آبادی پانچ ملین تک زیادہ ہوگئی ہے اور اب خبر پختونخواہ کے پاس ضلعے بھی زیادہ ہو گئے ہیں، تو اس صوبے کو جتنا فیصد حصہ ملتا تھا این ایف سی ایوارڈ میں اب وہ کافی نہیں ہے خیبر پختون خواہ حکومت یہ مطالبہ بھی کرتی ہے کہ ان کا حصہ زیادہ کیا جائے۔ کیونکہ فارمولا وہی پرانا ہے اور آبادی اور ضلعے اب زیادہ ہو گئے ہیں، بہرحال اب تک کوئی نیا فارمولا نہیں بنا۔