Islam, Ghair Mazhab Log Aur Hamara Na Insaf Muashra
اسلام، غیر مذہب لوگ اور ہمارا نا انصاف معاشرہ
میں بچپن میں یہ سنتا تھا کہ کسی غیر مذہب والے کے ساتھ ہاتھ ملانا جائز نہیں اور اگر غلطی سے بھی گلے ملے تو پھر آپ نے وہ کپڑے جلانے ہونگے کیونکہ وہ ناپاک ہو جاتے ہیں اور بدن بھی پلید ہو جاتا ہے اور پھر نہانا پڑے گا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ ہم سرکاری کالونی میں رہتے تھے ہمارے ساتھ اقلیتوں کا بھی ایک گھر تھا گھر کا سربراہ سرکاری سوئپر تھا ہم صفائی والو کو اپنے معاشرے میں چوہڑی کہتے ہیں اور اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔
میں اسکول میں پڑھتا تھا تو روزانہ برش نہیں کرتا تھا اور نہ ہی روزانہ نہاتا تھا لیکن ہمارے پاس جو اقلیتی خاندان رہتا تھا ان کے بچے روزانہ نہاتے اور برش کرتے تھے۔ تو میں اکثر سوچتا تھا کہ یہ لوگ جو اپنے صفائی کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے کی صفائی کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ پھر بھی یہ گندے کیسے ہیں؟ ہم اکثر مدرسہ جب جاتے تھے تو ہمارے اقلیتوں کے بچے بھی دوستی کی خاطر ہمارے ساتھ جاتے تھے ہم ساتھ کھیلتے تو تھے مگر اقلیتوں کے بچوں سے تھوڑا سائیڈ پر رہتے تھے کہ یہ کہیی ہمیں ہاتھ نہ لگا دے ورنہ ہم گندے ہو جائیں گے۔
میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ لیا تو ساتھ میں قرآن کا ترجمہ اور تفسیر بھی شروع کی جیسے ہی قرآن اور حدیث پڑھنا شروع کیا تو وہاں تو کچھ اور ہی لکھا تھا اور اس کے الٹ میں بچپن میں سنتا آرہا تھا۔ ہم جو غیر مذہب سے ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں سمجھتے، اسلام تو کہتا ہے کہ اگر کوئی غیر مذہب پانی جھوٹا کر دے تو اس پر وضو بھی جائز ہے اور وضو کرکے نماز بھی پڑھ سکتے ہیں شرط یہ ہے کہ اُس وقت اُس کے منہ میں کوئی ناپاکی نہ ہو۔
اقلیتوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا کھانا کھانا سب اسلام میں جائز ہے۔ آپ ﷺ کے زندگی کے ایسے بہت واقعات ہیں جو امن اور مزہبی ہم آہنگی کا ثبوت پیش کرتی ہے جس میں سب سے مشہور واقعہ یہ ہے کہ آپ ﷺ ایک ایسی غیر مسلم عورت کی عیادت کرنے گئے تھے جو ہر دن ان پر گندگی پھینکتی تھی آپ جس راستے سے روزانہ جاتے تھے وہاں کچھ دنوں سے گزران ہوا تو آپ نے گندگی پھینکنے والی عورت کو نہیں دیکھا۔ وجہ دریافت کی تو پتہ چلا کہ وہ عورت بیمار ہے تو آپ عیادت کرنے گئے۔ وہ کھڑکی جہاں سے آپ پر کوڑا پھینکا جاتا تھا وہ اب بھی سعودی عرب میں موجود ہے۔
اسلامی ریاست میں تمام غیر مسلم اقلیتوں اور رعایا کو عقیدہ، مذہب، جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت حاصل ہوگی۔ وہ انسانی بنیاد پر شہری آزادی اور بنیادی حقوق میں مسلمانوں کے برابر شریک ہوں گے۔ قانون کی نظر میں سب کے ساتھ یکساں معاملہ کیا جائے گا، بحیثیت انسان کسی کے ساتھ کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ جزیہ قبول کرنے کے بعد ان پر وہی واجبات اور ذمہ داریاں عائد ہوں گی، جو مسلمانوں پر عائد ہیں، انہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں اور ان تمام مراعات و سہولیات کے مستحق ہوں گے، جن کے مسلمان ہیں۔
"فان قبلوا الذمة فأعْلِمْہم أن لہم ما للمسلمین وعلیہم ما علی المسلمین" (بدائع الصنائع، ج:۶، ص: ۶2)
جبکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ کسی غیر مذہب کے معبود کو بھی برا مت کہو (القرآن سورة الأنعام آیات 6:108)۔
جب موسیٰؑ کو ایک ظالم حکمران بادشاہ فرعون کیطرف اللہ تعالیٰ نے بھیجا تو ان کو بھی یہ تلقین کی گئی کہ فرعون سے نرمی سے بات کرو (القرآن سورة طہ 20:44)۔
جب ہمارے دین اسلام میں بے گناہ اقلیتوں کے بارے میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے تو یہ غلط معلومات کون پھیلا رہا ہے؟ ہمارے معاشرے میں کیوں ہر سال مذہب کے نام پر تین چار واقعات رونما ہوتے ہیں کہ ایک آدمی نے مذہب کے نام پر دوسرے کو مار دیا یا جلا دیا۔
ایک دفعہ صحابہ نے شک کی بنیاد پر ایک آدمی کو قتل کر دیا جس نے بولا کہ میں مسلمان ہوں لیکن انہوں نے اس کو کافر سمجھ کر قتل کر دیا، جب آپ ﷺ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے نہایت افسوس کیا اور ان صحابہ سے پوچھا کہ کیا تم نے اس کا دل نکال کر دیکھا تھا کہ وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ؟ اور آئندہ ایسا کام کرنے سے سختی سے منع کردیا۔
| الراوي: أسامة بن زيد، صحيح البخاري الصفحة: 6872 |
اسلام کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا اور سزا جزا کے معاملے میں گواہان اور قاضی کو شامل کرنا اسلام میں لازم ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس نے ایک بے گناہ انسان (مسلمان یا غیر مسلم) کو قتل کر دیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا۔ اور جس نے ایک انسان (مسلمان یا غیر مسلم) کی جان بچائی تو گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔
(القرآن سورة المائدة آیات5:32)
دنیا کی وہ واحد کتاب قرآن ہی ہے جس کو لاکھوں لوگ تو پڑھتے ہیں مگر اس کو سمجھتے نہیں، ہم اپنے روایتی اصولوں کو اسلام کا نام دے کر اپناتے ہیں۔ ہم اعلیٰ تعلیم تو ضرور حاصل کرتے ہیں مگر قرآن کو سمجھتے نہیں حالانکہ قرآن مجید کو غیر مذہب بھی پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔
پھر اسی لاعلمی کیوجہ سے ہمارے معاشرے میں روزانہ کی بنیاد پر ناخوشگوار واقعات رونما ہوتے ہیں پھر وہی غیر مسلم لوگ آکر ہمیں مختلف این جی اوز کے ذریعے ہمیں مذہبی ہم آہنگی، برداشت، امن اور بھائی چارے کا درس دیتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک مسلمان معاشرے میں ایسا اسلئے ہورہا ہے کیونکہ اسلام میں اقلیتوں کے حقوق نہیں ہے۔ حالانکہ یہ ساری خامیاں ہمارے معاشرے میں تو ضرور ہیں مگر اس کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔