Climate Change
کلامیٹ چینج
آجکل ایک ٹاپک ہمارے ملک پاکستان میں ہر جگہ پر ڈسکس ہورہا ہے، اور انٹرنیشنل لیول پر بھی، جسکا نام ہے "کلائمیٹ چینج" مطلب کہ موسمیاتی تبدیلی۔ موسمیاتی تبدیلی تب ہوتی ہے، جب کسی جگہ پر معمول کا موسم طویل عرصے سے تبدیل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ گاڑیوں اور فیکٹریوں سے آلودگی، درختوں کو کاٹنا، اور دیگر انسانی سرگرمیوں جیسی چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ تبدیلیاں موسم کو پہلے سے کہیں زیادہ گرم، سرد، گیلا یا خشک بنا سکتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ اس سے سیلاب، خشک سالی، طوفان اور جانوروں اور پودوں کو نقصان ہوسکتا ہے۔
کلائمٹ چینج کے عوامل تو بہت ہیں، لیکن ان میں سے میں بہت ہی عام اور روز مرہ کے واقعات آپ کے ساتھ شریک کرنا چاہتا ہوں، تاکہ ہم جتنا کر سکتے ہیں اتنا اس میں مدد کرے اور اپنے کلائمیٹ کو بچائیں۔
گرین ہاؤس گیسز کا اخراج
گرین ہاؤس گیسز کیا ہے، آپ نے ایک نام ضرور سنا ہوگا، "گرین ہاؤس ایفیکٹ" جسکی بدولت گرمیوں کے پودوں کو بھی سردیوں میں اگایا جاتا ہے۔ جس میں ایک پلاسٹک کو پودوں کے اوپر لگایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس پلاسٹک میں تو سورج کی گرمائش آجاتی ہے، مگر اس سے باہر نہیں نکلتی، جسکی وجہ سے درجہ حرارت گرم رہتا ہے۔ اور اس میں پودوں کی نشونما اچھی ہوتی ہے، اور سبزیوں اور پھلوں کو بھی سردیوں میں اسی طرح اگایا جاتا ہیں۔
اسی طرح کی مثال ہماری دنیا کی ہے، کہ زمین پر سورج کی گرمی اور شعائیں تو آتی ہے، لیکن کچھ شعائیں اور گرمی یہاں پر رہ جاتی ہے۔ اس گرمی کا یہاں پر رہنے کیوجہ گرین ہاؤس گیسز ہے، جو گیسز ہم انسانوں کیوجہ سے وجود میں آتے ہیں۔ وہ آب و ہوا میں ایک تہہ پیدا کرتی ہے، جس کیوجہ سے وہ گرمی یہاں پر رک جاتی ہے۔ اسی طرح جیسے میں نے پودوں کی مثال دی۔ گرمی آتی ہے اور یہاں پر رکتی ہے، واپس ایمٹ نہیں ہوتی جسکی وجہ سے ٹمپریچر زیادہ ہو رہا ہے اس دنیا کا۔
آب و ہوا کی تبدیلی میں ہمارے انٹرنیٹ کے استعمال کا کردار:
ہماری انٹرنیٹ کی عادتیں بھی یہاں ذمہ دار ہیں۔ بھیجی گئی ہر ای میل، مووی سٹریم، یا گوگل پر سرچنگ ماحولیاتی نظام میں کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل کرتا ہے۔ یہ ہر آن لائن سرگرمی کے لیے ایک چھوٹی سی مقدار ہے، لیکن اگر یہ اکٹھا کیا جائے، تو یہ عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے ٪3.7، یا 1.3 بلین میٹرک ٹن سالانہ کے برابر ہے۔ یہ تقریباً برازیل، جنوبی افریقہ اور ترکی کے کل سالانہ اخراج کے برابر ہے۔ ہماری روزمرہ کی انٹرنیٹ کی عادات کے ماحولیاتی اثرات عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 3.7 فیصد تک اضافہ کرتی ہیں۔
ہماری روزمرہ کی زندگی میں پانی کا زیادہ استعمال:
اکثر ہم پانی کی مشین یا ہینڈ پمپ اپنے گھر میں لگاتے ہیں تو اس سے حد سے زیادہ پانی نکالتے ہیں اور یہی سمجھتے ہیں کہ یہ تو میرے گھر کا پانی ہے میں جتنا چاہوں اس کو استعمال کر سکتا ہوں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے اس زمین پر جو بھی پانی ہے وہ سارے انسانوں میں یکساں تقسیم ہے اگر آپ حد سے زیادہ پانی استعمال کر رہے ہیں تو آپ دوسرے انسان کا بھی حق مار رہے ہیں اس گاؤں میں جتنا بھی پانی ہوتا ہے تو اس میں سے سب کا برابر کا حصہ ہوتا ہے زمین کے نیچے پانی کی ایک لہر ہوتی ہے اگر آپ اپنی مشین سے حد سے زیادہ پانی نکل رہے ہیں تو آپ دوسروں کا بھی پانی نیچے سے کھینچ رہے ہیں جس کیوجہ سے دوسروں کو پانی صحیح سے میسر نہیں ہو سکتا۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں 2010 اور 2022 کا خطرناک سیلاب بھی کلائمیٹ چینج کی وجہ سے ایا تھا۔ موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتی ہے۔ ان خطرات کو کم کرنے کے لیے، سول سوسائٹی اور حکومت کو ہر سطح پر موثر تعاون کرنا چاہیے۔ سالانہ مطلب پاکستان میں گزشتہ 50 سالوں میں درجہ حرارت میں 0.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب اضافہ ہوا ہے۔ گرم دنوں کی تعداد گرمی کی لہر کے ساتھ پچھلے 30 سالوں میں تقریبا دوگنا ہوگیا ہے۔ گزشتہ صدی کے دوران کراچی کے ساحل کے ساتھ پانی کی سطح میں تقریباً 10 سینٹی میٹر کا اضافہ ہوا ہے۔ اس صدی کے آخر تک پاکستان میں سالانہ اوسط درجہ حرارت میں 3 ڈگری سینٹی گریڈ سے 5 ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ متوقع ہے۔ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ آفات کے خطرے کی سطحوں میں سے ہے، جو 2020 کے انفارم رسک انڈیکس میں 191 ممالک میں سے 18 ویں نمبر پر ہے۔
گلوبل وارمنگ سے متعلق سائنسدانوں کی پیش گوئیاں:
سائنسدانوں نے درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے کو گلوبل وارمنگ کے لیے "محفوظ" حد مقرر کیا ہے۔ اگر درجہ حرارت زیادہ ہو جائے تو قدرتی ماحول میں نقصان دہ تبدیلیاں انسانوں کے طرز زندگی کو تبدیل کر سکتی ہیں۔ بہت سے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ایسا ہوگا اور صدی کے اختتام تک 3 ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے زیادہ کے اضافے کی پیش گوئی کی ہے۔
دنیا بھر میں اس کے مختلف اثرات ہوں گے: برطانیہ انتہائی بارش کی وجہ سے سیلاب کے خطرے سے دوچار ہو جائے گا۔
بحر الکاہل کے نشیبی جزیروں والے ممالک بڑھتی سطح سمندر کی وجہ سے پانی کے نیچے غرق ہو سکتے ہیں۔
بہت سے افریقی ممالک خشک سالی اور خوراک کی قلت کا شکار ہوں گے۔
شمالی امریکہ میں بگڑتی خشک سالی کیوجہ سے مغربی حصے متاثر ہوں گے جبکہ دیگر علاقوں میں اضافی بارش اور زیادہ شدید طوفان آنے کا امکان ہے۔ آسٹریلیا کا سخت گرمی اور شدید خشک سالی کی لپیٹ میں آنے کا امکان ہے۔
لوگ کیا کر سکتے ہیں؟
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ لوگ مندرجہ ذیل اقدام کرسکتے ہیں:
سفر کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ یا سائیکل کا استعمال کرکے گاڑیوں پر انحصار کو کم کریں۔ اپنے گھروں کو انسولیٹ کریں۔ ہوائی سفر کم کریں۔ گوشت اوردودھ کے استعمال میں کمی کریں۔