Youm e Pakistan Aur Haqiqat
یوم پاکستان اور حقیقت
جب بھی میں پاکستان کی تشکیل اور اس سے پہلے کے احوال پڑھتی ہوں تو ایک سوال جو مجھے اکثر تاریخ اور نصاب سے متعلق پریشان کرتا ہے کہ تاریخ غلط ہے یا ہمارا نصاب، موازنہ کرنے پہ تو یہ سمجھ آتا ہے کہ ہم نے تاریخی واقعات میں سے بہت کچھ حذف کیا ہوا ہے۔سالوں سے ہم اپنی نسلوں کو یہ پڑھاتے آ رہے ہیں کہ قرارداد پاکستان 23 مارچ 1940 کو منظور ہوئی جبکہ یہ قرارداد کوئی ایک روزہ جلسہ نہیں تھا بلکہ یہ اجلاس تین دن جاری رہا۔
22 مارچ سے 24 مارچ، 1940ء جمعہ تا اتوار، لاہور کے منٹو پارک میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرارداد منظور ہوئی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے مسلمانوں کے لیے عليحدہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔ 2 جنوری 1940ء کو یہ فیصلہ کیا گیا کہ اجلاس کا انعقاد 22 تا 24مارچ کیا جائے گا۔
مسلم لیگی رہنماؤں نے اجلاس کے لیے لاہور کے منٹو پارک کا انتخاب کیا مگر حکام اس حوالے سے اجازت دینے سے انکاری رہے۔ بالآخر جب دباؤ بڑھ گیا تو 5 ہزار زرِ ضمانت کے عوض مشروط اجازت مل گئی۔ جب تین روزہ اجلاس تھا تو درسی کتب اس تفصیل سے محروم کیوں ہیں؟ ہم صرف 23 مارچ کو ہی کیوں یاد کرتے ہیں؟ جبکہ 22 مارچ سے 24 مارچ تک تینوں دن ہی یادگار ہیں خاص طور سے 24 مارچ کا دن، جس دن جلسہ اختتام کو پہنچا اور جس دن قرار داد کی تمام دستاویزات پہ آزادی کی مہر لگ گئی۔
ہم نے کبھی اپنے بچوں کو یہ نہیں بتایا اجلاس سے 4 روز قبل لاہور میں علامہ مشرقی کی خاکسار جماعت نے پابندی توڑتے ہوئے ایک عسکری پریڈ کی تھی جس کو روکنے کے لیے پولیس نے گولیاں چلائیں۔ کارکنوں اور پولیس کے دوران ایک "گورا افسر" ہلاک ہو گیا۔ اس کے بعد پولیس نے لاہور پر دھاوا بول دیا اور چن چن کر خاکسار تحریک کے کارکنوں کو نشانہ بنایا۔ جس کے نتیجے میں 50 کارکن شہید ہو گئے۔ اس سبب سے شہر میں زبردست کشیدگی تھی اور فضائے لاہور دلگیر بھی۔
ملک بھر سے مسلم لیگی راہنما و کارکن و عام مسلمان جلسے میں شرکت کے لیے جوق در جوق لاہور کی طرف رواں دواں تھے،قائد اعظم اجلاس کی صدارت کے لیے 21 مارچ کو لاہور پہنچے جہاں انکا پرجوش خیر مقدم کیا گیا پنجاب کا مقامی نہ ہونے کے باوجود قائد اعظم پنجاب والوں کے دل میں دھڑکن کی طرح دھڑکتے تھے۔
لاہور پہنچتے ہی جناح صاحب پہلے سیدھے میو اسپتال گئے جہاں انہوں نے خاکسار تحریک کے کارکنوں کی عیادت کی۔ اس موقع پر انہوں نے اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ اس اجلاس میں ایک تاریخ ساز فیصلہ کرے گی اُن کے اس ارشاد پر طرح طرح کی چہ مگوئیاں اور قیاس آرائیاں ہونے لگیں، اخبارات نے بھی بڑے بڑے حاشیے لگائے لیکن بات کی تہہ تک کوئی نہ پہنچ سکا۔ اور یہ بات آگے جا کر حقیقت ثابت ہوئی۔ کہ مسلمان اب تقسیم کا اٹل فیصلہ کر چکے ہیں۔
اسی دن قائداعظم نے پنڈال میں مسلم لیگ کا پرچم لہرایا اور لیگی کونسل کے اجلاس کی صدارت کی۔ جلسے کیلئے لگائے گئے پنڈال میں 60,000 افراد کی گنجائش تھی مگر شرکت کیلئے آنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ مقررہ وقت سے پہلے ہی پنڈال بھر چکا تھا۔ مسلم نیشنل گارڈ سبز وردیوں میں ملبوس حفاظتی فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ بعد میں آنے والے پنڈال سے باہر جمع ہوتے رہے ان کیلئے لاؤڈ اسپیکر ز لگائے گئے۔ لوگوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ جسٹس (ر) آفتاب فرخ کہتے ہیں کہ ان کے والد بیرسٹر فرخ حسین، جنہوں نے علم دین شہید کا کیس بھی لڑا تھا وہ اس جلسہ کی پنڈال کمیٹی کے انچارج تھے جب کہ پورے جلسہ کے انتظامات میاں امیر الدین اور میاں بشیر احمد کے ذمہ تھے۔
جمعہ 22 مارچ کو جمعے کی نماز کے بعد اجلاس کا آغاز ہوا۔اسٹیج پہ کرسیوں کے ساتھ ایک ٹیبل بھی رکھی ہوئی تھی جس پہ بیٹھ کر قائدِ اعظم کچھ دستاویزات پہ کام کرتے نظر آتے ہیں۔ تصاویر میں اسٹیج کے ایک طرف لگا وہ بینر نمایاں نظر آتا ہے جس پر اقبال کا یہ شعر درج تھا
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے، ادھر نکلے، ادھر ڈوبے، ادھر نکلے
جلسے کی کاروائی تلاوتِ قرآن سے شروع ہوئی جس کے بعد نظموں اور نغموں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسی روز "میاں بشیراحمد" کی نظم "ملت کا پاسبان ہے، محمد علی جناح" بھی پڑھی گئی۔ برصغیر کے کونے کونے سے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں نے اجلاس میں شرکت کرکے آزادی اور ایک الگ وطن کے قیام کے لیے قرارداد منظور کی۔ 22 مارچ کو قائداعظم محمد علی جناح دو بجکر پچیس منٹ پر جلسے میں آئے۔ اور عوام سے خطاب کیا قائداعظم کا خطاب انگریزی میں تھا اور فی البدیہ تھا جو پی ڈی ایف فائل میں اردو ترجمہ کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد انگریزی سمجھنے سے قاصر تھی مگر یہ طویل خطاب وہ انتہائی انہماک اور دلچسپی سے سنتے رہے اور داد وتحسین بھی دیتے رہے۔
23 مارچ 1940ء کو اجلاس کی کارروائی سہہ پہر 3 بجے شروع ہوئی۔ بنگال کے راہنما اے کے فضل الحق نے قراردادِ لاہور پیش کی اور اس کی تائید میں تقریر کی۔ چوہدری خلیق الزمان نے اس قرارداد کی تائید کی اور مختصر سا خطاب کیا۔ مولانا محمد علی جوہر مرحوم کی اہلیہ نے اپنی تقریر میں اس قرارداد کا ذکر"قراردادِ پاکستان " کہہ کر کیا۔ چودھری خلیق الزماں (یوپی) کے علاوہ جن دوسرے رہنماؤں نے قرارداد کی تائید میں تقاریر کیں ان میں، ظفر علی خاں (پنجاب)، سردار اورنگزیب خاں (سرحد) اور سر عبداللہ ہارون (سندھ) شامل تھے۔ اجلاس کے دوران اس قرارداد کو "آئینی قرارداد" کہا گیا اور بعد میں لیگ نے اسے قراردادِ لاہور کا نام دیا۔
24 مارچ کو صبح سوا گیارہ بجے اجلاس پھر شروع ہوا۔ اس دن خان بہادر نواب محمد اسماعیل خاں (بہار)، قاضی محمد عیسیٰ خاں (بلوچستان)، عبدالحامد خاں (مدراس)، آئی آئی چندریگر (بمبئی)، سید عبدالرؤف شاہ (سی پی) اور ڈاکٹر محمد عالم نے قرارداد کی تائید میں تقاریر کیں۔ سید رضا علی اور عبد الحمید بدایونی نے بھی قرارداد کی تائید میں تقاریر کیں۔ جس کے بعد اجلاس کی کارروائی کو رات 9 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
رات میں جب اجلاس شروع ہوا۔ تو 19 مارچ کو ہونے والے سانحہ پر قائداعظم نے خاکساروں سے ہمدردی کی قرارداد پیش کی۔ اس کے بعد "آئینی قرارداد" کی تائید میں سید ذاکر علی، بیگم محمد علی اور مولانا عبدالحامد نے تقاریر کیں جس کے بعد قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ قرارداد کی منظوری کے بعد مسلم لیگ کے آئین میں ترمیم کی قرارداد منظور ہوئی اور عہدیدار منتخب کیے گئے۔
آخر میں قائداعظم نے نواب بہادر یار جنگ کو تقریر کی دعوت دی جن کیلئے مختار مسعود نے اپنی مشہور ترین تصنیف "آوازِ دوست" میں لکھا تھا کہ "ان کی تقریر کبھی آتش فشاں ہوتی کبھی آبشار"۔ کہ ہم نے بعینہ وہی کیا جو وہ ہم سے کروانا چاہتے تھے۔ " اجلاس سمیٹتے ہوئے اختتامی کلمات میں قائداعظم نے اجلاسِ لاہور کو مسلم ہند کی تاریخ کا عہد آفریں باب قرار دیا جس نے مسلمانوں کی منزل متعین کر دی۔ یہ تاریخی اجلاس رات ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوا۔ صرف آدھے گھنٹے کا فرق تھا ورنہ اگر جلسہ آدھ گھنٹہ اور چلتا رہتا تو پچیس کی تاریخ بھی شامل ہو جاتی۔
قائدِ اعظم کے سیکریٹری مطلوب الحسن سید کا بیان ہے کہ قرارداد کی منظوری کے بعد انھوں نے کہا۔"اقبال اب ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ معلوم کر کے خوش ہوتے۔ کہ ان کا خواب زندہ تعبیر ہونے جا رہا ہے۔ "
یہ صرف چیدہ چیدہ واقعات تھے جو مذکورہ تین دنوں سے متعلق میں نے قلم بند کیے ہیں مگر درسی کتابیں 1940 سے موجودہ دن تک صرف اور صرف 23 مارچ کا راگ ہی الاپ رہی ہیں جبکہ تاریخ اس سے بالکل مختلف ہے میں سمجھنے سے قاصر ہوں، کیوں ہم اپنی ہی تاریخ کو ردوبدل کے ساتھ اپنی ہی نسلوں کو گمراہ کر رہے ہیں؟ حالانکہ تحریک پاکستان کے حوالے سے ایک ایک حقیقت کو جاننا ہماری نسلوں کا حق ہے اور ہمارے نصاب لکھنے والوں کا فرض بھی کہ وہ تصویر کا اصل چہرہ قوم کے نونہالوں کو دکھائیں جو کہ بےحد ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ ہم تاریخ جاننے والے ہندوستانیوں اور یورپین کے سامنے مذاق بن کر رہ جائیں۔