Urdu Ki Tareekh o Ahmiyat
اردو کی تاریخ و اہمیت
سر زمینِ ہند (موجودہ بھارت، پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش) کی تاریخ کے پرانے صفحات کی اگر ورق گردانی کریں تو ایسے ایسے انکشافات پے در پے افشاں ہوں گے کہ انسانی عقل چکرا کر رہ جائے کہ موجودہ وقت کیسا ہے اور قدیم دور کے حالات کیا تھے؟ ایک وقت تھا جب اس وسیع و عریض براعظم پہ فارسی زبان کا راج تھا مگر 1800 میں برطانوی حکمرانوں نے فورٹ ولیم کالج کی بنیاد اس غرض سے رکھی تاکہ یہاں اردو زبان کو فروغ دیا جائے۔
برصغیر پر قبضے کے بعد انگریزوں نے جلد ہی بھانپ لیا تھا کہ اس ملک میں آئندہ اگر کوئی زبان مشترکہ زبان بننے کی صلاحیت رکھتی ہے تو وہ اردو ہے۔ انگریزوں کی باقاعدہ حکومت اس خطے پہ قائم ہونے کے بعد انھیں ضرورت تھی ایک ایسی زبان کی جو مقامی لوگوں اور حکمران طبقے کے درمیان رابطے کی زبان بن سکے۔ اردو زبان، حکمران طبقے کو آسان فہم لگی اس لیے انھوں نے فارسی کی بجائے اردو کو سیکھنے اور سمجھنے کے لیے فورٹ ولیم کالج کو سرکاری سرپرستی بخشی۔
1938 میں پہلی بار اردو کو پورے براعظم کی سرکاری اور دفتری زبان قرار دیا گیا۔ حالانکہ یہ مسلمان حکمرانوں کا دور نہیں تھا۔ مسلمان حکمرانوں کے دور میں فارسی ملک کی سرکاری زبان تھی۔ یہ بات واضح رہے کہ اس موقع تک ہندوستانی زبان نستعلیق رسم الخط ہی میں لکھی جا رہی تھی اور اس وقت اردو اور ہندی کو دو الگ الگ زبانوں کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا۔
مگر 1867ء میں کچھ ہندو تنظیموں اور قائدین نے اردو زبان کی مخالفت شروع کر دی۔ اردو زبان کی مخالفت کے نتیجے سے اردو ہندی تنازع شروع ہوا۔ بنارس کے چیدہ چیدہ ہندو رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ سرکاری عدالتوں اور دفاتر میں اردو اور فارسی کو یکسر ختم کر دیا جائے اور اس کی جگہ ہندی کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کیا جائے۔ ہندوؤں نے برطانوی بل بوتے پر زور پکڑتے ہی سب سے پہلا حملہ اردو زبان پر کیا اور ایک شعوری تحریک شروع کی جس کے تحت اُردو زبان سے عربی اور فارسی لفظوں کو نکال کر اس میں سنسکرت الفاظ شامل کر کے ہندی کے نام سے ایک نئی زبان بنائی۔
یہ کہا گیا کہ اردو قرآن کے رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اس کی جگہ ہندی یا دیوناگری رسم الخط جاری کیا جائے۔ اس لسانی تحریک کا صدر دفتر آلہ آباد میں قائم کیا گیا جبکہ پورے ملک میں ہندوؤں نے کئی ایک ورکنگ کمیٹیاں تشکیل دیں، تاکہ پورے ہندوستان کے تمام ہندوؤں کو اس تحریک میں شامل کیا جائے اور اس کے مقاصد کے حصول کو ممکن بنایا جائے۔ یہ پہلا موقع تھا جب اردو ہندی تنازع پہ دونوں قوموں کا اختلاف کھل کے سامنے آیا۔
بابائے جدید تعلیم سر سید احمد خان وہ پہلے شخص تھے جن کی دور اندیش سوچ نے معاملے کی نزاکت کو بھانپ لیا انھوں نے اس موقع پہ برملا کہہ دیا، "کہ آج سے ہندو اور مسلمانوں کی راہیں جدا ہیں۔ " اس کے بعد اردو، ہندی کبھی ایک نہج پہ یکجا نہ ہو سکیں، بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ دوریاں مزید بڑھنے لگیں۔ نظریہ پاکستان جو قیام پاکستان کی اساس تھا اس کا ایک محرک اردو زبان کا تحفظ اور نفاذ بھی تھا۔ مگر چودہ اگست انیس سو سینتالیس کے بعد اردو کو کئی سال گزرنے کے بعد بھی سرکاری درجہ نہ مل سکا۔
جوش ملیح آبادی لکھتے ہیں کہ
ایک بار پاکستان سے رخصت لے کر، میں جب دہلی میں پنڈت جواہر لال نہرو سے ملا، تو انہوں نے بڑے طنز کے ساتھ مجھ سے کہا، جوش صاحب! پاکستان کو اسلام، اسلامی کلچر، اور اسلامی زبان، یعنی اردو کے تحفظ کے واسطے بنایا گیا تھا۔ لیکن ابھی کچھ دن ہوئے کہ میں پاکستان گیا اور وہاں یہ دیکھا کہ میں تو شیروانی اور پاجامہ پہنے ہوئے ہوں، لیکن وہاں کی حکومت کے تمام افسر، سو فیصد انگریزوں کا لباس پہنے ہوئے ہیں۔
مجھ سے انگریزی بولی جا رہی ہے اور انتہا یہ ہے کہ مجھے انگریزی میں ایڈریس (خطاب) بھی دیا جا رہا ہے۔ مجھے اس صورتِ حال سے بے حد صدمہ ہوا، اور میں سمجھ گیا کہ "اردو، اردو، اردو" کے جو نعرے ہندوستان میں لگائے گئے تھے، وہ سارے اوپری دل سے اور کھوکھلے تھے۔ اور ایڈریس کے بعد جب میں کھڑا ہوا تو میں نے اس کا اردو میں جواب دے کر سب کو حیران و پشیمان کر دیا اور یہ بات ثابت کر دی کہ مجھ کو اردو سے ان کے مقابلے میں کہیں زیادہ محبت ہے۔
اور جوش صاحب معاف کیجئے، آپ نے جس اردو کے واسطے اپنے وطن کو تج دیا ہے، اس اردو کو پاکستان میں کوئی منہ نہیں لگاتا۔ اَور جائیے پاکستان۔ میں نے شرم سے آنکھیں نیچی کر لیں۔ ان سے تو کچھ نہیں کہا، لیکن ان کی باتیں سن کر مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا۔ میں نے پاکستان کے ایک بڑے شاندار منسٹر صاحب کو جب اردو میں خط لکھا، اور ان صاحب بہادر نے انگریزی میں جواب مرحمت فرمایا تو میں نے جواب الجواب میں یہ لکھا تھا کہ جنابِ والا! میں نے تو آپ کو اپنی مادری زبان میں خط لکھا لیکن آپ نے اس کا جواب اپنی پدری زبان میں تحریر فرمایا ہے۔
جوش ملیح آبادی۔
تو جناب یہ ہے ملک پاکستان میں اردو کا مقام، یہاں اگر دفتری سطح پہ انگریزی نہ بولیں تو کم و بیش لوگ ہی آپ کو اعلیٰ تعلیم یافتہ تسلیم کریں گے۔ اور اگر انگریزی نہ بولنے پہ لوگ آپ کی تعلیمی اسناد کو مشکوک جانیں تو برا منانے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے انگریزی زبان فر فر بولنے والے دو چار کورس کر لیجئیے۔