Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Taleem Aur Shaoor e Islam

Taleem Aur Shaoor e Islam

تعلیم اور شعورِ اسلام

بلاشبہ دنیا کی ترقی کا انحصار حصولِ تعلیم میں مضمر ہے۔ تعلیم کی بدولت ہی قوموں نے عروج پایا۔ تعلیم نے آدمیت کو انسانیت کے رنگ میں ڈھالا۔ ورنہ تو آدمی فقط جسمانی خواہشات کے حصول کو مقصدِ حیات سمجھتا تھا۔ تعلیم نے انسان کو اصولِ انسانیت کے ساتھ ساتھ آدابِ زندگی بھی سکھائے۔ مٹی سے بنا انسان جو تہذیب و ثقافت سے عاری تھا۔ نیکی اور بدی کے فرق سے نابلد تھا۔ تعلیم نے اُسے تہذیب سکھائی۔ غلط اور صیحح کا فرق سمجھایا۔

علم میں بھی سرور ہے لیکن!

یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں

علم کا حصول ہر مرد و عورت کے لیے لازمی ہے۔ دنیا کا کوئی مذہب اس کے حصول کو برائی نہیں گردانتا، بلکہ ہر فرقے اور معاشرے میں علم کو اعلٰی مقام حاصل ہے۔ اسی طرح دینِ اسلام نے بھی تعلیم کو مرد و عورت کی بنیادی ضرورت کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخوقات کا درجہ عقل و خرد کی بنا پہ دیا۔ اُسے وہ ذہانت بخشی۔ جو فرشتوں کے حصے میں بھی نہ آئی۔

علم حاصل کرنے کی نہ تو کوئی عمر ہے۔ نہ ہی کوئی خاص مقامِ حیات، بلکہ انسان آخری دم تک طفلِ مکتب ہوتا ہے۔ یہ وہ زیور ہے جس سے انسان عمر کے کسی بھی حصے میں خود کو خوبصورت بنا سکتا ہے۔ اس زیور کو نہ حسن کی ضرورت ہے نہ ہی شباب کی، علم تو بحرِ بیکراں ہے اور اس کی کوئی انتہا نہیں۔

لیکن ہم مسلمانوں کی بدبختی ملاحظہ کیجیے۔ کہ ہم اُس دین کے پیرو ہیں جس کا آغاز لفظ "اقرا" سے ہوا۔

حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہیں پیچھے

جس قوم کا آغاز ہی اقرا سے ہوا تھا!

موجودہ دور میں تعلیم کا معیار کافی حد تک بدل ہو چکا ہے۔ ہم مسلمان جو کسی دور میں ریاضی، ادب، طب، فلکیات، معاشیات اور سیاست کے استاد مانے جاتے تھے۔ ہم ہی جدیدیت کی رو میں بہہ کر شکت خوردہ ہو چکے ہیں۔ کیونکہ تعلیم آج مغرب کی باندی بن چکی ہے۔ تعلیم کا معیار بدل چکا ہے۔ تعلیم سے روحانیت نکل چکی ہے۔

آج کا مسلمان علم کی حقیقی روح سے بےبہرہ ہو چکا یے۔ ہمارے تعلیمی نظام سے دین کا عنصر حذف ہو چکا ہے۔ ہم نے صرف دنیاوی علم کو ترقی کا زینہ سمجھ لیا ہے۔ موجودہ صدی میں مقصدِ تعلیم فقط دنیاوئ علم کی آگاہی تک محدود ہو گیا ہے۔ اور اسی کو ترقی کا زینہ مانا جاتا ہے۔ اور یہ دنیاوئی علم نفسانی آسائشوں کی لذتوں کا حصول بن گیا ہے۔

ابتدا یہ تھی کہ میں تھا اور دعویٰ علم کا

انتہا یہ ہے کہ اس دعوے پہ شرمایا بہت

ہم ایک خدا کو ماننے والے، اور اسلام کے قواعد پہ ایمان رکھنے والے بھی ایسے علم کی خواہش کرنے لگے۔ جس نے مسلمان کو دین سے دور کر دیا۔ موجودہ وقت کی تعلیم دولت حاصل کرنے، اشیا پر قابو پانے اور نت نئی دماغی اور جسمانی ذائقوں اور لذتوں کی صفات کا مرکز ہے۔ مشاہداتِ قدرت اور تسخیرِ فطرت کے عناصر حذف ہو چکے ہیں۔ جامع الفاظ میں وضاحت کچھ یوں کہ تسخیرِ کائنات اور مظاہرِ قدرت کے مشاہدات کا علم حاصل کرتے وقت اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ کہ یہ سب کاری گری اللہ رب العزت کی مطلق العنانیت کے شواہد ہیں۔ اُس کی قدرت سے انکار کرنے والا دائرہ اسلام کے زمرے میں نہیں آتا۔ دینِ اسلام کا پہلا رکن ہی توحید یعنی ایک اللہ پہ ایمان اور اُس کے قادرِ مطلق ہونے پہ کامل یقین ہے۔ اُس کے بعد عقیدہ آخرت پہ یقین ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ روزِ محشر اپنے اعمال کا حساب ہر انسان کو دینا ہے۔ اور اللہ تعالٰی کے فرشتے ہر عمل کو ترتیب وار کتابِ اعمال میں درج کر رہے ہیں۔

اطفال اور نوعمروں کی آبیاری کی ذمے داری بہت حد تک تعلیمی اداروں پہ لاگو ہوتی ہے۔ ادارہ اور اُس سے وابستہ افراد اُن کی تربیت اس انداز میں کریں، کہ وہ جدید تعلیم کے ساتھ اپنے مذہب اور عقائد سے بھی جڑے رہیں۔ نہ کہ اُن عقائد سے بغاوت کر جائیں۔ ناپختہ ذہن، گیلی مٹی کے جیسے ہوتے ہیں۔ جو بیج بوئیں گے، ویسی فصل اُگے گی۔ گیلی مٹی میں اگر بےدینی کے بیج بوئے جائیں تو پھل الوہیت کے نور سے عاری ہوگا۔

ہمارے ملک کے تینوں دساتیر میں تعلیمی اداروں میں قرآن اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ مگر نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے جدید طرز کے تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم فقط ایک مضمون بن کر رہ گئی۔ عملی زندگی میں اس کی اہمیت سے آگاہی کا درس نصاب سے باہر کر دیا گیا۔ بچیوں کو نہ تو پردے کی تلقین کی جاتی ہے اور نہ لڑکوں کو اطوارِ اسلام سکھائے جاتے ہیں۔ آزادی، بےباکی، بلند حوصلہ سکھانے والے برداشت، قناعت، رواداری، صبر، ایمان، کے موضوعات بھول چکے ہیں۔ موجودہ وقت میں پوری دنیا، مغربی علوم کی لیپٹ میں ہے۔ جو دینِ اسلام کے منافی تعلیم ہے۔

وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں

جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کفِ جوَ

یہ تعلیم مادیت پرستی، عقل و خرد اور الحاد کا سبق دیتی ہے۔ اور ایسا علم جس میں اللہ رب العزت کے وجود یا اُس کی ذات و صفات و انکار ہو۔ ایسی تعلیم علم نہیں، فتنہ و شر ہے جس کا نتیجہ یہ سامنے آ رہا ہے کہ طفل دینِ اخلاق سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ اپنے اسلاف کے طرزِ زندگی کو قدامت پسندی کے مترادف خیال رکھتے ہیں۔ اور اسلامی اصولوں سے انحراف کو روشن خیالی سمجھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے تعلیمی معیار کو اسلام کے اصولوں میں ڈھال کر نوعمروں کی تربیت کریں۔ کیونکہ اپنی نسلوں کو اپنی زمین سے جوڑے رکھنا ہم سب کا فرض ہے۔

Check Also

Nakara System Aur Jhuggi Ki Doctor

By Mubashir Aziz