Saqoot e Dhaka 1971
سقوط ڈھاکہ 1971
(سولہ دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ میں پاکستانی فوج کے مشرقی بازو کے کمانڈر جنرل نیازی نے بھارتی فوج کے کمانڈر کے سامنے ہتھیار ڈالے اور پاکستان کے دو حصے ہوگئے)
تیرے ساتھ مکمل تھا میں
کیا میں اب آدھا رہ گیا ہوں
غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کی ایک ناقابلِ فراموش داستان، جس نے ایک مسلمان ملک کو دو لخت کر دیا۔ یہاں جھگڑا دو قوموں کا نہیں تھا بلکہ ایک مذہب، ایک قوم کے باہمی تصادم کی دلخراش تاریخ۔ ایک ایسا زخم جس سے آج بھی لہو رس رہا ہے جس کی ٹیس آج بھی تڑپا دیتی ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ کہ ہندوستان کے بٹوارے سے قبل ہی 3جولائی 1946ء کو بنگال کو دو حصّوں میں تقسیم کردیا گیا، یعنی ہندو اکثریتی مغربی بنگال اور مسلم اکثریتی مشرقی بنگال۔ یہ صوبہ ایک بہت بڑا صوبہ تھا جہاں ہندو اور مسلمان دونوں کی آبادی زیادہ تھی مسلمان ایک بار پہلے یعنی 1905 کو بھی اسکی تقسیم کا مطالبہ کر چکے تھے جسے آغاز میں تو مان لیا گیا مگر یہ ہندوؤں کی بےحد مخالفت پہ 1911 میں اس تقسیم کی تنسیخ کر دی گئی۔بعدازاں، اگست 1947ء کو ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں مغربی بنگال، بھارت اور مشرقی بنگال پاکستان کا حصّہ بن گیا۔سقوط مشرقی پاکستان، یا بنگلہ دیش کی آزادی، آپ اپنی پسند کا کوئی بھی نام دے دیں سنہ 1971 پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ سمجھا جاتا ہے۔
بھارت نے پاکستان کا وجود دل سے کبھی تسلیم ہی نہیں کیا۔ تبھی تو انیس سو سینتالیس سے ہی سازشوں کا جال بنتا چلا آ رہا ہے۔ انیس سو اکہتر میں اس کا ایک کاری وار چل بھی گیا۔ مگر سیاسی اور عسکری حلقے اب تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ غلطیاں تو اپنی بھی تھیں۔1970 کے عام انتخابات کے بعد ملک میں پیدا ہونے والا سیاسی ڈیڈ لاک ملک کو دو لخت کرگیا۔ ان حالات نے ازلی دشمن بھارت کو ہمارے رستے زخم میں پروپیگنڈے کا زہر گھولنے کا موقع ہاتھ آگیا اور پھر 16 دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکا جیسا قومی سانحہ ہو گیا۔ گہری چوٹ کھائی مگر سبق پا لیا کہ ڈھال کا خیال نہ رکھا جائے تو دشمن کا وار چل ہی جاتا ہے۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا یہ بیان کہ "آج ہم نے مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے کر پاکستان کا دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے" اُن کے دل میں مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف چھپی نفرت کی عکاسی کرتا ہے۔ اندرا گاندھی نجی محفلوں میں اکثر یہ بھی کہا کرتی تھیں کہ "میری زندگی کا حسین ترین لمحہ وہ تھا جب میں نے پاکستان کو دولخت کرکے بنگلہ دیش بنایا" اندرا گاندھی کے حوالے سے امریکہ کے سابق سیکریٹری خارجہ ہنری کسنجر نے بھی اپنی کتاب میں یہ انکشاف کیا ہے کہ اندرا گاندھی سقوط ڈھاکہ کے فوراًبعد مغربی پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں مگر عالمی طاقتوں کی ناراضگی اور ناسازگار حالات کے باعث وہ ایسا کرنے سے باز رہیں۔
یہ حقیقت بھی سب پر عیاں ہے کہ بھارت کی مداخلت کے بغیر پاکستان دولخت نہیں ہوسکتا تھا لیکن بھارت کی مداخلت کے لئے سازگار حالات ہمارے حکمرانوں نے خود پیدا کئے۔ ہم بھارت پر یہ الزام کیوں عائد کریں کہ اُس نے یہ مذموم کھیل کھیلا، دشمن کا کام ہی دشمنی ہوتا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمراں دشمن کی دشمنی کے آگے بند باندھنے کے بجائے دشمن کو ایندھن فراہم کرتے رہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اقلیت ملک توڑنے کا سبب بنتی ہے اور علیحدہ وطن کے لئے کوشاں رہتی ہے کیونکہ وہ اکثریت سے متنفر ہوتی ہے لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ اکثریت نے اقلیت سے الگ ہونے کی جدوجہد کی۔
مشرقی پاکستان کی آبادی جو ملک کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد تھی، میں اس احساس محرومی نے جنم لیا کہ وسائل کی تقسیم میں اُن سے ناانصافی اور معاشی استحصال کیا جارہا ہے جو کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ مشرقی پاکستان میں سرکاری اداروں میں خدمات انجام دینے والوں میں سے اکثریت کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا جو بنگالی زبان سے بھی ناآشنا تھے۔مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان کے مقابلے میں کم ترقی یافتہ تھا۔ پھر وہ جب اپنے سے کم آبادی والے صوبے کے ترقیاتی کام اور لوگوں کا رہن سہن دیکھتے، تو اُن کی سوچ کو مزید تقویت ملتی۔ اِن ہی وجوہ کی بنا پر بنگالی یہ محسوس کرنے لگے کہ اقتدار اور اختیار کا اصل مرکز اسلام آباد ہے اور وہ اس مرکزی حکومت کے محکوم ہیں اور یہ کہ اقتدار و اختیار اور ملازمتوں میں اُن کا جو حصّہ بنتا ہے، وہ انہیں نہیں دیا جا رہا۔
دوسری جانب پاکستان دشمن قوتوں اور مشرقی پاکستان میں آباد بااثر ہندوئوں نے، جو قیامِ پاکستان کے پہلے ہی خلاف تھے، بنگالیوں کو یہ باور کروانا شروع کردیا کہ اُن کا ہر شعبۂ زندگی میں استحصال کیا جارہا ہے، چنانچہ ان ہی وجوہ کی بِنا پر پاکستان اپنے قیام کے چند برسوں بعد ہی عدم استحکام کا شکار ہوگیا۔ بنگالیوں نے خود مختاری کے لیے آواز بلند کرنا شروع کردی، جس میں وقت کے ساتھ ساتھ پختگی اور تیزی آتی چلی گئی۔
پاکستان کو دولخت کرنے میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے ملک سے زیادہ پارٹی یا ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور 3 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی پارٹی کے ارکان کو شریک نہ ہونے کی ہدایت کی جبکہ جنرل یحییٰ خان اور مجیب الرحمٰن کی ڈھاکہ میں ہونے والی ملاقات بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی کیونکہ یحییٰ خان عدم مفاہمت کی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے تھے۔ بے یقینی کی ایسی صورتحال میں اقتدار کی منتقلی میں تاخیر کا ملک دشمنوں نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو علیحدہ وطن کا جواز مہیا کیا جس کا اظہار انہوں نے 23 مارچ 1971ء کو"یوم پاکستان" کے بجائے "یوم سیاہ" مناکر اور سرکاری عمارتوں پر بنگلہ دیشی پرچم لہرا کر کیا۔
جس کے بعد فوج نے باغیوں سے نمٹنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا۔ اس صورتحال کا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور فوج کے خلاف بنگالیوں کے قتل عام اور انسانیت سوز مظالم ڈھانے جیسے منفی پروپیگنڈے شروع کر دیئے۔ یہ حقیقت بھی سب جانتے ہیں کہ بھارتی پارلیمنٹ نے 71ء کی جنگ سے بہت پہلے مشرقی پاکستان کے علیحدگی پسندوں کی تنظیم مکتی باہنی کی مدد کے لئے ایک قرارداد منظور کی تھی جبکہ بھارتی فوج مکتی باہنی کے شدت پسندوں کو ٹریننگ، ہتھیار اور مدد فراہم کرنے میں پیش پیش رہی۔ مکتی باہنی کے ان باغیوں نے 71ء کی جنگ سے قبل ہی پاک فوج کے خلاف اپنی گوریلا کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا اور 3 دسمبر 1971ء کو جب پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوا تو ان باغیوں جن کی تعداد تقریباً 2 لاکھ بتائی جاتی ہے، نے بھارتی فوج کا بھرپور ساتھ دیا۔
حمود الرحمٰن کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان میں موجود ڈیڑھ کروڑ ہندو وہاں انتشار پھیلانے میں سرگرم ہوگئے تھے۔دنیا کی کوئی بھی فوج اپنے ہی عوام سے کبھی جنگ نہیں جیت سکتی، یہی کچھ مشرقی پاکستان میں ہوا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بھارتی فوج اور عوامی لیگ کا یہ پروپیگنڈہ کہ پاک فوج نے مشرقی پاکستان میں 30 لاکھ سے زائد شہریوں کو قتل کیا، درست نہیں کیونکہ حمود الرحمٰن کمیشن کے مطابق ان ہلاکتوں کی اصل تعداد 26 ہزار ہے جو مکتی باہنی کے علیحدگی پسند تھے اور انہی علیحدگی پسندوں نے پاکستان کی حمایت کرنے والے لاکھوں بے گناہوں کا قتل عام کیا تھا۔
بھارتی فوج کے 9 انفنٹری ڈویژنز نے آرمرڈ یونٹس اور مکمل ایئر سپورٹ کے ساتھ مشرقی پاکستان پر تین طرف سے حملہ کیا تھا، لیکن اس حملے سے مہینوں پہلے بھارتی خفیہ ایجنسی را مشرقی پاکستان میں مکت با نیوں کی مدد سے اپنی تخریبی کارروائیاں شروع کر چکی تھی جنہیں کچھ طیارے بھی فراہم کر دیئے گئے تھے۔ایسی صورت حال میں فوج نے جتنی دیر بھی جنگ لڑی وہ قابل قدر ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کا دفاع اتنا کمزور کیوں رکھا گیا تھا؟ کیا حکمرانوں نے پہلے سے سوچ رکھا تھا کہ اسے علیحدہ کر دیا جائے گا؟ عام خیال ہے کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو انتخابی نتائج تسلیم کرکے اپوزیشن میں بیٹھ جاتے تو مشرقی پاکستان کے حالات بالکل مختلف ہوتے لیکن وہ ہر صورت میں وزیر اعظم بننا چاہتے تھے۔
قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اگر شیخ مجیب الرحمان وزیر اعظم بن جاتے تو ان کے لیے بنگلہ دیش کے منصوبے پر عمل کرنا مشکل ہوتا لیکن وہ اور ان کے منتخب ارکان بنگلہ دیش سے کم کسی چیز پر آمادہ نہیں تھے، تاہم بھٹو کے جاگیردارانہ سیاسی تکبر اور فوجی آپریشن کے باعث مشرقی پاکستان میں بنگلہ دیش کی تحریک پر تشدد شدت اختیار کر گئی جس کی وجہ سے شیخ مجیب الرحمان کو پہلے بھی گرفتار کیا جا چکا تھا۔بھارت ڈسنے کیلئے موقع ڈھونڈتا ہی نہیں، مواقع پیدا کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ عدم مفاہمت اور دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام نہ کرنا ملک کو دولخت کرنے کا سبب بنتا ہے۔