Pakistan Ka Nizam e Taleem
پاکستان کا نظامِ تعلیم
بہت دن ہوئے قلم کاغذ کی طرف دھیان ہی نہیں گیا، مصروفیت کچھ زیادہ رہی یا توجہ کہیں اور تھی مگر یہ کہ تقریباً دو ماہ ہو چکے میں نے ایک بھی کالم نہیں لکھا۔ پھر یوں ہوا کہ حلقہ یاراں میں بھی چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ آخر "ہانیہ ارمیا" آج کل غائب کہاں ہے؟ خیریت دریافت کرنے کے لیے اشاعتی اداروں کی ای میلز آنے لگی۔ ایک لکھنےکا شوق ہی تو ہے جو مجھے مجھ سے وابستہ رکھتا ہے ورنہ تو شائد میں خود میں ہی مدغم ہو چکی ہوتی۔ لیکن خیر اب سوچا ہے کہ پھر سے پہلے کی طرح لکھا جائے۔
میں بہت عرصے سے نسلِ نو کی تعلیم پہ لکھنا چاہ رہی تھی یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ کیا پاکستان کے جدید تعلیمی اداروں میں دی جانے والی تعلیم اخلاق سنوار رہی ہے؟ کیا اس قوم کا بچہ تعلیم کے سمندر سے ادب کے موتی چن رہا ہے یا نہیں؟ رواں سال کے آغاز میں ڈیفنس لاہور کے ایک اسکول میں طالبات کا جھگڑا اس بات کی واضح دلیل تھا کہ پاکستان میں ایلیٹ کلاس تعلیمی ادارے صرف بچوں کے اندر بےخوفی کے فروغ کے علاوہ اور کچھ اجاگر نہیں کر رہے اور مضحکہ خیز نکتہ یہ ہے کہ ایسے اداروں میں استاد خوف زدہ رہتے ہیں جبکہ بچے دیدہ دلیری کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں اور وہ واقعہ فقط پاکستان کے لاہور شہر کے ایک اسکول کا نہیں تھا ان اداروں کی فہرست بہت لمبی ہے جہاں استاد کی گردن نیچی اور طالب علموں کی نگاہیں بلند ہوتی ہیں۔
جنوبی ایشیا میں سائنسی اور انگریزی تعلیم سرسید کی مرہون منت ہے۔ سرسید وہ انسان تھے جنہوں نے کھلے دل سے جدید تعلیم کو خوش آمدید کہا اور اس کے فروغ کے لیے سب سے پہلے قدم آگے بڑھایا گویا وہ جدیدیت کے بانی مانے جاتے ہیں حالانکہ جناب سرسید خود انگریزی زبان سے نابلد تھے۔ انہوں نے فارسی اور عربی زبان میں تعلیم حاصل کی تھی اردو زبان پہ عبور رکھتے تھے۔ انگریزی کتب پڑھنے سے قاصر تھے اس کے باوجود وہ برطانوی کتب سے بہت متاثر تھے۔
وہ اپنے صاحبزادے کے ہمراہ انگلستان گئے تاکہ وہاں کی درسگاہوں اور کتب خانوں کا جائزہ لے سکیں اس کے بعد انہوں نے متحدہ ہندوستان میں برطانوی طرز کے تعلیمی ادارے قائم کرنے کے مشن کو زندگی کا مقصد بنا لیا اس کاوش کی بہترین مثال علی گڑھ یونیورسٹی ہے۔ جدید تعلیم کے بانی کے طور پہ جہاں سرسید کے سر پہ ستائش کا تاج ہونا چاہیے تھے مگر تاریخ اس متعلق ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ناقدین کی آرا اس بارے میں مکمل مختلف تھی ابھی چند ماہ پہلے میں ایک کالم پڑھ رہی تھی کہ علی گڑھ نے بلاشبہ تعلیم کی راہیں کھولیں مگر یہ ہی علی گڑھ ادارہ نوجوانوں کی اخلاقی پستی کی وجہ بنا۔
کیونکہ اس ادارے نے طالب علموں کو استاد کے مقابل لا کھڑا کیا وہ وقت جب بچے استاد کے سامنے آنکھ نہیں اٹھاتے تھے اس دور میں علی گڑھ ادارے نے ایسے استاد تعینات کیے جو طلبا سے ہاتھ ملانا معیوب نہ سمجھتے تھے وہ انہیں اپنے برابر کھڑا کرکے گفتگو کرتے تھے اور ان میں اکثریت برطانوی اساتذہ کی تھی۔ ایسی اور بھی بہت ساری وجوہات تھیں جن کے باعث قدامت پسند علما اور مدارس علی گڑھ کو پسند نہیں کرتے تھے۔ پاکستان میں موجود انگلش میڈیم اسکولز اِسی علی گڑھ کی جدید اور خستہ صورت ہے جہاں استاد ثانوی اور طالب علم اولین درجہ رکھتے ہیں۔
گزرتے وقت نے جہاں انسانی اطوار بدل دئیے ہیں، وہیں وقت کی تیز لہر نے تعلیمی اداروں کے مزاج کو طالب علموں کے لیے شائستہ بنا دیا ہے۔ معاشی مسائل کی آندھی نے ایسی گرد اٹھائی ہے کہ وہ وقت یکسر غائب ہو چکا ہے جب استاد محترم کی جوتیاں اٹھانا شاگرد کے لیے اعزاز ہوا کرتا ہے اب کے حالات پہ لکھنا وقت کا ضیاع ہے۔ کیونکہ ڈیفنس اسکول کے واقعے پہ جب میں نے لکھا تو ایک جانب سے صدا گونجی "جیسے استاد، ویسے شاگرد" دل تو چاہا کہ پلٹ کے کہوں"تم نے استاد کو استاد رہنے کہاں دیا؟ تعلیم کو زیور کی بجائے کاروبار بنا لیا اور شاگرد کو سرمایہ کاری کا اثاثہ۔
مگر کبھی کبھی چپ رہنا عقلمندی کی دلیل ہوتی ہے۔ مجھے بھارتی گلوکارہ لتا کا ایک جملہ ازبر ہے کہ "جب تک حالات آپ کے حق میں نہ ہوں تب تک خاموش رہیں۔ " جدیدیت کا سیلاب تعلیمی اداروں میں نئی تبدیلی کا خواہاں ہے کہ بچے کو قلم کتاب کے جھنجھٹ سے نکال کے عملی زندگی سے متعارف کروایا جائے اسے لفظ پھول پڑھانے کی بجائے باغ کے کھلے پھول سے پہچان کروائی جائٕے۔ خیال اچھا ہے کیونکہ بچہ تو اب ویسے بھی کتاب قلم کا خواہشمند نہیں۔ موبائل، کمپيوٹر، لیب ٹاپ نے اس کی پسند کو بدل دیا ہے۔
وہ اب کہانی سننے کی بجائے شارٹ ویڈیو دیکھنا یا ویڈیو گیم کھیلنا زیادہ پسند کرتا ہے مگر جدیدیت کی یہ خام خیالی باتیں مجھے لطائف سے کم نہیں لگتی کیونکہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس کا تعلیمی نظام آج بھی ویسا پرانا اور فرسودہ ہے جیسے سرسید پہ تنقید کرنے والوں کے خیالات تھے۔ ابتدائی جماعت سے لے کر ہشتم تک تو اسکول بچے کو اپنے رنگ میں ڈھال سکتا ہے مگر جماعت نہم سے اعلیٰ درجوں کے تمام امتحان ملک پاکستان کے قائم کردہ نظام کے تحت ہی لیے جاتے ہیں۔
فیڈرل بورڈ ہو یا لاہور بورڈ، کیمرج کے امتحانات ہوں یا یونیورسٹی سطح کے، ہر طالب علم کے لیے کتاب اور قلم کی شرط لازمی ہے۔ رٹا بازی سسٹم کی اہمیت اسی سطح پہ سمجھ آتی ہے۔ خوبصورت لکھائی کو سراہا جاتا ہے۔ طالب علم کی تعلیم کا ناپ تول انہی امتحان کی بنیاد پہ کیا جاتا ہے جس کے بعد اسے کامیابی کی سند یا ناکامی کی مہر ملتی ہے اور یہ کامیابی اور ناکامی اسے برسر روزگار بناتی ہے یا دفتروں کے چکر لگواتی ہے۔
یہ امتحان تعلیمی اسناد کا لالچ دے کے گدھے اور گھوڑے تیار کرتے ہیں جو صبح سے شام تک روزگار کے نام پہ جانور بنے رہتے ہیں کیونکہ ہمارا نظام بزنس نالج تو دیتا نہیں اور نہ ہی معاشی حالات ہر طالب علم کو تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کاروبار کرنے کی اجازت دیتے ہیں ہاں نوکری نہ ملنے کی صورت میں برگر یا آئس کریم پوائنٹ کھولنے کی مکمل آزادی ہے مگر اس میں نفع نقصان خود کی ذمے داری ہے۔
مارچ 2020 تا 2021 سابقہ حکومت نے تعلیم میں کافی مزیدار اصلاحات کیں، جب باعث کرونا دو سال تک نہم تا بارھویں امتحان کا طریقہ ہی بدل گیا۔ پہلے تو پورے ملک میں آنلائن کلاسز کا دھماکا کیا، بچے اور والدین تو پریشان تھے ہی، اساتذہ بھی پریشان کہ آخر کرنا کیا ہے؟ بہت سارے اداروں کے اساتذہ تو خود نہیں جانتے تھے کہ اس طریقہ تدریس پہ کیسے عمل درآمد کیا جائے؟ اور اس طریقے کے خاطر خواہ نتائج بھی میسر نہ آ سکے۔
ہمارے تعلیمی نظام کی ایک خطرناک کمزوری طبقاتی تقسیم اور غیر یکساں نصاب بھی ہے ایک امیر بچے کے لیے سہولیات اور محبت سے بھرا ادارہ جبکہ دوسری طرف غریب بچے کے لیے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی ایک صدی پرانی کتابیں اور آسائشات سے عاری ادارہ، جہاں اُسے غلطی کرنے پہ کبھی ڈانٹ تو کبھی تھپڑ بھی پڑ سکتا ہے۔ اور سب سے خطرناک حقیقت ان اداروں کے اساتذہ کم تعلیم اور غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔
جنہیں میری ذاتی رائے کے مطابق بچوں کو پڑھانے سے پہلے خود پڑھنے کی ضرورت ہے لیکن چونکہ تعلیم ایک کاروبار بن چکی ہے اور شعبہ تدریس، پیشہ روزگار، اس لیے میری قوم کے اس غریب بچے کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا۔ پچھتر سال گزر جانے کے بعد بھی یہ ملک بیساکھیوں پہ چل رہا ہے تو اس کی پہلی وجہ تو یہاں حکمرانوں کی نااہلی اور دوسری تعلیم کی پسماندگی ہے۔