Pakistan Aur Siasat (2)
پاکستان اور سیاست (2)
مارشل لاء لگ گیا صدر سکندر مرزا سے ایوب خان کے بہت سے معاملات پہ اختلافات تھے۔ اختلافات بڑھنے کی صورت میں بالاخر ایوب خان نے پاکستان کی صدارت سنبھال لی اور سکندر مرزا کو معزول کر دیا۔ اسوقت قوم نے صدر ایوب خان کو خوش آمدید کہا کیونکہ پاکستانی عوام غیر مستحکم جمہوریت اور بے وفا سیاست دانوں سے بیزار ہو چکی تھی۔ عوام کے لیے ایوب خان کسی خدائی نعمت سے کم نہ تھے۔
ایک ریفرنڈم کے ذریعے ایوب خان پاکستان کے صدر کے عہدے پہ براجمان ہو گئے انھوں نے عوام کو 1962 کا آئین بھی بخشا۔ مارشل لا اٹھا لیا گیا۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ جمہوری انداز جزوی تھا۔ انتخابات میں صدر ایوب خان کے مدِ مقابل سب سے اہم حریف مادرِ ملت فاطمہ جناح تھیں اور اس دور میں قوم کے لیے قائد اعظم کی اہمیت چار گنا ہو چکی تھی دراصل وہی اچھا ہے جو اس دنیا سے لاپتہ ہے جو چلا گیا پھر نہ لوٹ کے آنے کے لیے، وہ خاص الخاص ہو جاتا ہے مگر قائد اعظم کی بے پناہ مقبولیت کے باوجود بھی وہ ہار گئیں۔
ایوب خان وزارتِ صدارت پہ براجمان ہو گئے اسکے بعد فاطمہ جناح کے خلاف مشکوک فتح اور 1965 کی جنگ کی وجہ سے ایوب خان کے لیے حالات ناسازگار ہو چکے تھے۔ اس کے معاہدہ تاشقند نے ایوب خان کے گرد دائرہ تنگ کر دیا۔ طلبہ نے معاہدۂ تاشقند کے خلاف تحریک کا آغاز کیا جو کافی شدت اختیار کر گئی اور رفتہ رفتہ ایوب خان کے خلاف ایک قوت کی شکل اختیار کر گئی لیکن اس تحریک کو بعد ازاں بزور قوت دبا دیا گیا۔ وزارت خارجہ کا قلمدان چھننے کے بعد بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور عوام میں موجود ایوب مخالف جذبات کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔
1966ء میں مشرقی پاکستان کی سیاسی جماعت عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے شیخ مجیب الرحمن نے 6 نکات پر مشتمل مطالبات پیش کر دیے۔ ان نکات کو مغربی پاکستان میں سیاسی اور عوامی دونوں سطحوں پر، شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور علیحدگی پسندی کے مترادف قرار دیا گیا۔ اس کے بعد شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کر لیا گیا۔ جبکہ مغربی پاکستان میں ایوب خان کے خلاف تحریک زور پکڑتی گئی اور امن عامہ کی صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ ایوب خان نے بھٹو اور شیخ مجیب کو پابند سلاسل کر دیا۔ جس سے ایوب خان کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہوا۔
نومبر 1968ء میں مخالف جماعتوں کے متحدہ محاذ نے ملک میں بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی جس نے خوں ریز ہنگاموں کی شکل اختیار کر لی۔ اسی سال ایوب خان پر قاتلانہ حملہ ہوا جو ناکام رہا۔ 1969 میں ایوب خان نے عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کے علاوہ باقی اپوزیشن پارٹیز سے مذاکرات کے لیے گول میز کانفرنس کی لیکن اس میں بھی ناکامی ہوئی۔ اس دوران ایوب خان کو دل کا دورہ لاحق ہوا اور اسی سال ان پر فالج کا حملہ بھی ہوا اور وہ صاحب فراش ہو گئے۔ انہیں ویل چئر پر لایا جاتا تھا مارچ 1969ء تک حکومت پر ایوب خان کی گرفت بہت کمزور ہو چکی تھی۔
23 مارچ 1969ء کو یحیٰی خان نے ایوب خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی تیاریوں کو حتمی شکل دی اور کور کمانڈروں کو ضروری ہدایات دیں۔ 25 مارچ 1969ء کو ایوب خان نے قوم سے خطاب میں اقتدار سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا جس کے بعد یحیٰی خان نے باقاعدہ مارشل لا نافذ کرنے کا اعلان کر دیا اور یوں ملک پاکستان کا پہلا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جو طاقت کے بل پہ قوم کی امیدوں کا نیا سویرا بن کے آیا تاریخ بتاتی ہے کہ وہ بھی بے آبرو ہو کے تختہ سیاست سے بےدخل ہوا۔
وہی قوم جو کبھی ایوب خان کی آمد کو وقت کا ایک بڑا انعام سمجھ رہی ہے وہی قوم ان کی سیاسی ہٹ دھرمیوں سے تنگ آ کر ان سے فراغت پانے کی سعی کرنے لگی۔ یحییٰ خان نے اگلے سال عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ جنرل آغا محمد یحٰیی خان پاکستان کی بری فوج کے پانچویں سربراہ اور تیسرے صدر مملکت تھے۔ صدر ایوب خان نے اپنے دور صدارت میں انھیں 1966ء میں بری فوج کا سربراہ نامزد کیا۔ اور نامزد کر کے خود ہی اسکے ہاتھوں حکومت سے خارج ہوا جنرل یحییٰ 1969ء میں ایوب خان کے استعفے کے بعد عہدۂ صدارت بھی سنبھال لیا۔
30 جون 1970ء کو سرحد اور بلوچستان کی صوبائی حیثیت بحال کر دی۔ سابق ریاست بہاول پور کو پنجاب میں اور کراچی کو سندھ میں شامل کر دیا گیا۔ اور سابق سرحدی ریاستوں سوات، دیر اور چترال کو ملا کر مالاکنڈ ایجینسی قائم کی گئی۔ 7 ستمبر، 1970ء کو قومی اسمبلی اور 17 دسمبر کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ جنھیں ملکی و غیر ملکی مبصرین نے پاکستان کی تاریخ میں پہلے آزادانہ و منصفانہ انتخابات قرار دیا۔
مگر اقتدار کی منتقلی نے تاریخ کا ایک نیا باب رقم کیا مجیب الرحمٰن سمیت تمام مشرقی بنگال کو امید تھی کہ وزارت عظمیٰ کا قلمدان اس بار ان کے حصے میں آئے گا مگر جب ایسا ہوتا نظر نہ آیا تو ملک ایک بار پھر خانہ جنگی کی گرفت میں آ گیا احتجاج زور پکڑنے لگا مجیب الرحمٰن پس پشت بھارت سے رابطے استوار کرنے لگا بھارت نے اس بلاہٹ کو خوش آمدید کہا کیونکہ وہ تو 1947 سے آس لگائے بیٹھا تھا کہ کب دشمن کو زیر کر سکوں علامہ کے خواب اور قائد کی محنت کو مٹی میں ملانے کو بےتاب بھارت مشرقی پاکستان کا سب سے قریبی رفیق بن گیا اور یوں پاکستان دو لخت ہو گیا چودہ روزہ اس جنگ کے نتیجے میں بزرگوں کی تگ ودو شکت خوردہ ہوئی رقابت نے جشن منایا اور پاکستان دو حصے ہوا سیاست ایک بار پھر پلٹی۔
16 دسمبر، 1971ء کو مشرقی پاکستان پر بھارتی افواج کے قبضے اور مغربی پاکستان کے محاذ پر پاکستانی افواج کی غیر تسلی بخش کارکردگی کو بنیاد بنا کر بنا ملک میں یحییٰ خان کی فوجی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے۔ عوام پھر سے سڑکوں پہ آ گئے۔ میں ویسے اس ساری صورتحال کو لکھتے ہی یہ ضرور سوچ رہی ہوں کہ کیا ہماری عوام اس قدر فارغ البال ہے کہ جب موڈ بنا سڑکوں پہ احتجاج کی غرض سے خیمے ڈال لیے۔
عوام کے احتجاج اور تنقید کے پیش نظر 20 دسمبر، 1971ء کو جنرل یحیٰی نے اقتدار پیپلز پارٹی کے چیرمین ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کر دیا۔ 8 جنوری، 1972ء کو انھیں، عوامی غیظ و غضب سے بچانے کے لیے، نظر بند کر دیا گیا۔ ورنہ شائد قتل کر دئیے جاتے۔ اور یوں مارشل لا کا دوسرا باب بھی اختتام کو پہنچا جمہوریت بحال ہوئی عوام نے اپنے من چاہے لیڈر کا خیر مقدم کیا اور پھر شروع ہوا پیپلز پارٹی کی حکومت کا دور، یعنی ذوالفقار علی بھٹو کے پھانسی تک پہنچنے تک کی کہانی سیاست کی بل کھاتی اور رنگ بدلتی ڈگر کا انوکھا موڑ ہے۔
اقتدار کی ڈوری ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ آ گئی بھٹو جمہوری حکومت میں صدر پاکستان سکندر مرزا کے وزیر اعظم فیروز خان نون کی کابینہ میں وزیر تجارت تھے۔ ایوب خان کے دور میں بھی 1954 سے وزیر دفاع کے منصب پر فائز رہے۔ 1958ء تا 1960ء صدر ایوب خان کی کابینہ میں وزیر تجارت، 1960ء تا 1962ء وزیر اقلیتی امور، قومی تعمیر نو اور اطلاعات، 1962ء تا 1965ء وزیر صنعت و قدرتی وسائل اور امور کشمیر جون 1963ء تا جون 1966ء وزیر خارجہ رہے۔
دسمبر 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ 1970ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ دسمبر 1971ء میں جنرل یحیٰی خان نے پاکستان کی عنان حکومت مسٹر بھٹو کو سونپ دی۔ وہ دسمبر 1971ء تا 13 اگست 1973 صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہے۔ 14 اگست 1973ء کو نئے آئین کے تحت وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ تاریخ پاکستان کے اس مقبول وزیراعظم کو بابائے آئین کے نام سے بھی یاد کرتی ہے۔
(جاری ہے)