Nazriyat Dunya Badal Dete Hain
نظریات دنیا بدل دیتے ہیں
نظریہ انسان کی سوچ اور شعور کی عکاسی کرتا ہے قدرت نے انسان کے اندر سوچ کا مادہ بھی اسی لیے رکھا ہے کہ وہ منحرف نہ ہوسکے۔ وہ یہ نہ کہہ سکے کہ اُسے کسی چیز کا پتہ نہ تھا۔ بقول اقبال
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اُن کو اپنی منزل آسمانوں میں
انسان میں عقابی روح کی بیداری اس کی بلند سوچ کی مرہونِ منت ہے۔ سوچ نہ صرف انسان کے نفس کو بلکہ اس کے مقدر تک کو تبدیل کرنے کی قدرت رکھتی تھی۔ علمِ نفسیات کے مطابق انسان کی سوچ کی لہریں فضا میں ملحق ہو جاتی ہیں۔ اور جیسے جیسے وہ سوچ پختہ ہوتی جاتی ہے وہ سوچ اس کے مقدر کے ستاروں سے میل کھانے لگتی ہے۔
بلند سوچ دنیا بدل دیتی ہے۔ سوچ کی لہروں کی شدت اس کے شخصیت پہ گہرا اثر ڈالتی ہے۔ انسانی سوچ و نظریات پہ بات کرنے سے پہلے لفظ نظرئیے سے متعلق آگاہی لازمی ہے۔ کہ بنیادی طور پہ نظرئیہ آخر کس پرندے کا نام ہے جو سوچ کے پر لگا کر خیالوں کو پرواز دیتا ہے۔
لفظ نظرئیے کی اصطلاح عربی سے لی گئی ہے۔ جس کا مفہوم ماہرین عمرانیات (معاشرتی علوم) نے الفاظ اور اسلوب بیان کے ساتھ بیان کیا ہے۔ نظرئیہ وہ تصور، مقصد یا نصب العین ہے جس کے حصول کے لیے انسان اپنی جدوجہد کا آغاز کرتا ہے۔ یہ ایسے لائحہ عمل کا نام ہے۔ جس کے زیرِ اثر افراد سے اقوام تک اپنی زندگی کی راہ متعین کرتی ہیں۔ مگر انسائیکلو پیڈیا نظرئیے کا مفہوم جامع الفاظ میں یوں کرتا ہے۔ نظرئیہ اُن سیاسی اور تمدنی اصولوں کا نام ہے جس پہ کسی قوم یا تہذیب کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔
نظرئیہ گو ایک فردِ واحد کے ذہن کی اختراع کا عمل ہے مگر اس کی پختگی میں قوموں کی تعمیرِ نو پوشیدہ ہے نظرئیے کا کسی مخصوص شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ہونا لازم نہیں۔ بلکہ یہ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ تعلیم، معاشرتی اطوار، سیاست، مذہب، آزادی، قومیت غرضیکہ اس کا دائرہ کار بےحد وسیع ہے۔ نظریہ عقائد، نظریات، اور احساسات کا ایک ایسا نظام ہے جو ہماری سوچ کی راہنمائی کرتا ہے جب بات تشریح کی آتی ہے کہ دنیا کیسی ہے اور اس میں پائے جانے والے معاشرتی مظاہر کیا ہیں۔ تب ہماری سوچ متحرک ہو کر جواب کی تلاش میں سرگرداں ہوتی ہے۔ مگر افسوس ناک المیہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہر کسی کو دماغ کے ساتھ شعور بھی عطا کیا ہے مگر اس کا استمعال ہر انسان نہیں کرتا۔ بلکہ ہم میں سے بہت سے عقل و دانش رکھنے کے باوجود روایت اور قدامت پسند رہنا ہی بہتر گردانتے ہیں ہمارے نزدیک روایات سے ہٹ جانا بغاوت ہے اور اس بغاوت کو اکثر معاشرتی زندگی کی موت کا نام دیتے ہیں۔
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گئے
ورنہ گلشن میں علاج تنگیٔ داماں بھی ہے
اگر تاریخ کے اوراق پلٹیں تو نظریات سے دنیا میں تبدیلی کی بہترین مثالیں ہمارے آباؤ اجداد کی تخلیق کردہ ہیں۔ سرسید احمد خان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ نے جنوبی ایشیا کو وہ نظریہ تعلیم بخشا جس کی بدولت سرزمین ہند کا مسلمان جسے انگریز اپنے دروازے پہ کھڑے ہونے کی اجازت نہ دیتے تھے وہ اُن کے ساتھ میز پہ بیٹھ کر گفتگو کرنے کے قابل بنا۔ انھوں نے قلم کی طاقت سے دنیا کو روشناس کرایا۔ مگر بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کسی محقق نے ان کے نظریات کو سمجھ کر اس بات کا جائزہ لیا ہو کہ ان کی سوچ اپنے ہم عصروں سے الگ محض اس لیے نہیں تھی کہ وہ ان سے الگ نظر آناچاہتے تھے۔ بلکہ اس کی وجہ ان کے وہ نظریات اور وژن تھا جس کا وہ نہ صرف اپنی تقریروں میں سر عام پر چار کرتے تھے بلکہ ان کے حصول کے لیے انہوں نے عملی طور پر کام کیا، تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی۔
سرسید احمد خاں نے علم کے قدیم تصور کو رد کیا اور ان کا خیال تھاکہ ایسا علم حاصل کیا جائے جس سے قوم کی ترقی ہو۔ آپ نے ہندوستانیوں میں شعورو آگہی کی بیداری کے لیے کوشش کی۔ مگر جب تک وہ زندہ رہے ناقدوں کی کڑی نظروں اور تنقید کا نشانہ بنتے رہے۔ انھیں غدار اور انگریزی تہذیب کا غلام کہا جاتا تھا۔ مگر انھوں نے بار بار ہندوستانی مسلمانوں کو قلم سے جہاد کی تلقین کی۔ اور اس تحریک کے دور رس نتائج برآمد ہوئے۔ اور آج موجودہ وقت میں نظریہ سرسید کو جدید تعلیمی نظام کی بنیاد کہا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں جدید اور سانئسی تعلیم ان ہی کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ انھوں نےاپنے جدید نظریہ تعلیم سے مسلمانوں کی ذہنی اور معاشی پسماندگی کو تبدیل کر کے آزادی کی روشنی بخشی۔ اگر اُس وقت سرسید جنوبی ایشیا کے مسلمان کو جدید تصورِ تعلیم نہ دیتے۔ انھیں روشن راہ نہ دکھاتے تو یہ آزاد پاکستان کا حصول شائد ممکن نہ ہو پاتا۔ نظریہ سے دنیا بدل دینے کی دوسری زندہ مثال ہمارا ملکِ پاکستان ہے۔ نظریہ پاکستان جو ہماری تاریخ کا اہم حصہ ہے۔
نظریہ پاکستان سے مراد وہ تصور کہ متحدہ ہندوستان کے مسلمان، ہندوؤں، سکھوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں سے ہر لحاظ سے مختلف اور منفرد ہیں ہندوستانی مسلمانوں کی صحیح اساس دین اسلام ہے اور مسلمانوں کا طریق عبادت کلچر اور روایات ہندوؤں اور باقی سب مذاہب سے بالکل مختلف ہے۔ یہ نظریہ وہ بنیاد ہے جس کی بدولت 14 اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آیا۔ ہمارے وطن پاکستان کا قیام تاریخ میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان ایک نظریے کی بنیاد پر قائم کیا گیا۔ اسی وجہ سے پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست کہا جاتا ہے۔
تن بہ تقدیر، ہے آج اُن کے عمل کا انداز
تھی نہاں جن کے ارادوں میں خُدا کی تقدیر
نظریہ تعلیم کی جدیدیت نے مسلمان قوم کے ذہن کو جلا بخشی۔ اور نظریہ پاکستان نے اُن کے تشخص کو ایک نئی راہ دکھائی۔ تعلیم کی روشن خیالی نے انھیں ایسی جرات دی کہ وہ اپنے وقت کی طاقتور قوم کے سامنے کھڑے ہوئے اور بنا خوف کھائے الگ وطن کا مطالبہ کیا۔ اور دنیا کو ثابت کر دکھایا کہ جو قومیں اپنے تشخص کی جنگ ایک نظرئیے کے تحت لڑتی ہیں۔ ہمشیہ فاتح ہوتی ہیں۔