Maholiyati Tabdeelian Aur Pakistan
ماحولیاتی تبدیلیاں اور پاکستان
ماحولیاتی مسائل اس وقت تقریباً تمام دنیا کو اپنے گرداب میں لیے ہوۓ ہیں اور تمام دنیا تیزی سے ان تبدیلیوں کی زد میں آ رہی ہے گزشتہ اور رواں سالوں میں کرہ ارض کے کسی خطے میں سرد موسم کے ریکارڈ ٹوٹے تو کہیں گرمی نے زمین کو پگھلا کر رکھ دیا کہیں سیلاب اور طوفان نے تباہی مچائی تو کہیں موسلا دھار بارشوں نے دھوم مچائی گو یہ تمام مسائل ملکوں کی انفرادی کوتاہیوں کا نتیجہ ہیں اور ترقی یافتہ صنعتی ممالک کا ماحولیاتی مسائل کے بڑھنے میں بہت بڑا حصہ ہے تاہم ان کے اثرات تمام ممالک پر یکساں پڑ رہے ہیں ان مسائل میں سہرِ فہرست موسمیاتی تبدیلیاں ہیں جسے کلائمنٹ چینج کہتے ہیں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث نہ صرف موسموں کے دورانیے میں تبدیلی آ رہی ہے بلکہ موسموں کے اتار چڑھاؤ کے باعث کرہ ارض کا آبی نظام اور زراعت سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اسی سے جڑا ایک اور اہم عالمی مسئلہ موسمی حدت ہے جسے گلوبل وارمنگ کہتے ہیں جس کے باعث ماحول کی فطری شکل تبدیل ہو رہی ہے قدرتی ماحول میں تیزی سے تبدیلی کی وجہ سے گلیشیرز پگھل رہے ہیں جیسے جیسے درجہ حرارت میں اضافہ ہو گا ویسے ویسے زمین پہ زندگی کم ہوتی جاۓ گی۔
پاکستان کا شمار اُن پہلے دس ممالک میں ہوتا ہے جو ماحولیاتی مسائل کی زد میں ہیں جرمنی کے ماحولیاتی ادارے تھنک ٹینک کی سال 2019 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں سے گزشتہ دو دہائیوں میں لگ بھگ 10 ہزار لوگ ہلاک ہوۓ اور ملکی معشیت کو تقریباً 3 ارب 80 کروڑ کی مالیت کا نقصان ہوا عالمی ادارے جرمن واچ کی ایک تازہ رپورٹ میں پاکستان کو اُن ممالک میں شامل کیا گیا ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں "گلوبل کلائمنٹ رسک انڈیکس" 2020 کی رپورٹ کے مطابق سال 1999 سے لے کر سال 2018 تک کے بیس برسوں کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں سے جو ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوۓ ہیں اُن میں پاکستان پانچویں نمبر پہ ہے۔
پاکستان گزشتہ دس برسوں میں بدترین سیلابوں، طوفانوں، بارشوں اور ہیٹ اسڑوک سمیت کئی قدرتی آفات کا سامنا کر چکا ہے جس کے بعد اس بات کی پیش گوئی بھی کر دی گئی ہے کہ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے موثر حکمتِ عملی تیار نہ کی گئی تو آنے والے وقت میں ملک خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے ہمارے پاس پانی کے ذخائر ختم ہوتے جا رہے ہیں جبکہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت پاکستان کی ہزاروں منجمند جھلیوں کی بقا کے لیے بڑا خطرہ ہے ایک طرف معشیت پہ خشک سالی کے ساۓ منڈلا رہے ہیں تو دوسری طرف ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ملکی زراعت اور زرعی پیداوار بھی متاثر ہو رہی ہے۔
گزشتہ دنوں ایک عالمی ادارے کی جانب سے کیے گئے سروے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستاں ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے محفوظ رہنے اور نمٹنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ پاکستان کے پاس نہ ایسے ذرائع ہیں اور نہ ہی تربیت یافتہ عملہ جو کسی بدترین ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کر سکے۔
ہمارے متعلقہ ادارے بھی اس بات کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں پاکستان کو شدید گرمی کا سامنا ہو گا لیکن ہمارے پاس اس سے نمٹنے کے لیے کوئی تیاری موجود نہیں اور اس نااہلی کا خمیازہ ہم سال 2015 کراچی میں جان لیوا ہیٹ اسڑوک کی صورت میں بھگت چکے ہیں۔
اس کے علاوہ تقریباً گزشتہ چار سالوں سے پاکستان ایک اور ماحولیاتی مسئلے سے دوچار ہے اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں پڑنے والی سموگ ماحول میں عجیب ٹھنڈک پیدا کر دیتی ہے فضا کے اوپری حصے پہ ٹھہری ہوئی سموگ سورج کی روشنی اور حدت زمین واسیوں تک پہنچنے نہیں دیتی جس کے باعث ان دو مہینوں میں سردی بڑھنے لگتی ہے۔
ایک بار اس سموگ کا ذکر میں نے ایک ہندوستانی کے ساتھ کیا تو آگے سے جو جواب ملا بڑا حیرت ناک تھا کہ اس سموگ کی وجہ ہندوستان میں دیوالی تہوار میں بہت زیادہ تعداد میں چلائے جانے والے پٹاخوں کا دھواں سمجھا جاتا ہے دیوالی پہ جب ہر طرف پٹاخے چلائے جاتے ہیں اوزون لہر کو مسخ کرنے والا یہ دھواں فضا کی اوپری سطح پہ ٹھہر جاتا ہے جس سے کئی دنوں تک ماحول میں یہ سموگ ٹھہری رہتی ہے۔اب چونکہ بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور اس کی سرحدیں ہمارے بیشتر علاقوں سے ملتی ہیں لہذا پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ان دو ماہ میں پھیلی سموگ کی وجہ ماحولیاتی آلودگی بھی ہو سکتی ہے۔
اس وقت ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان کے لیے جنگ سے بھی بڑا خطرہ ہیں لیکن افسوس پاکستان کے متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں یا فنڈز کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں دوسری جانب عوام کے تحفظ کے ضامن اور دعوے دار سیاسی رہنما یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے انھیں اس سے کوئی غرض نہیں۔
لاہور کے ایک تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی حوالے سے ماضی کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں نے ملک میں اس مسئلے کو مزید پچیدہ بنا دیا ہے اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت اس معاملے میں قدرے بہتر ہے فرماتے ہیں کہ " حکومت کا خیبر پختونخوا میں ایک ارب درخت لگانے کا فیصلہ انتہائی فائدہ مند ثابت ہو گا مزید دس ارب درخت لگانے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ اور اس سال جشنِ آزادی کے موقع پہ "درخت لگاؤ" مہم کافی کارآمد ثابت ہوئی ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی جگہ الیکڑک کاریں درآمد کرنے کا فیصلہ بھی انشاء اللہ بہتری لاۓ گا مگر اس میں ابھی کافی وقت درکار ہے کیونکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر اور مسائل سے گھری عوام کے لیے اس سہولت کو بروئے کار لانا آسان نہیں۔ بےشک اس سے ماحولیاتی مسائل کو کم کرنے میں مدد ملے گی مگر اس کے استعمال کے لیے بیش بہا سرمایہ بھی درکار ہے مگر فی الوقت ان دونوں اقدام کے فوری نیتجہ کی توقع کرنا بیوقوفی ہے۔
کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی مسائل کو روکنے کے لیے جنگلات کا کٹاؤ فوری روکنا چاہیے مگر اس پہ عمل درآمد نہیں ہو رہا ایک معروف برطانوی اخبار میں مستقبل میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق رپورٹ شائع کی جس کے مطابق 2050 میں بڑھتی ہوی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے صحتِ عامہ کے بہت سے پچیدہ مسائل سر اٹھائیں گے جس کی وجہ سے 50 لاکھ افراد لقمہ اجل بن جائیں گے۔
اب بھی اگر ہمارے سیاسی راہنماؤں اور متعلقہ اداروں نے موثر حکمت عملی اختیار نہ کی تو توقع ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ یہ تبدیلیاں انسانی جانوں کے لیے بھی ایک بہت بڑا خطرہ ہے جس سے ہمارے نو عمر بچے متاثر ہو رہے ہیں۔