Likhna Aur Shaya Hona
لکھنا اور شائع ہونا
میں بحیثیت لکھاری آج خود یہ اعتراف کرتی ہوں کہ جو کچھ ہم لکھاری لکھتے ہیں وہ ہمیشہ مستند نہیں ہوتا۔ جو مواد ہم سوچ کے سمندر سے نکال کر قلم کے ذریعے کاغذ پہ اتارتے ہیں اور قاری کو پڑھنے کے لیے فراہم کرتے ہیں۔ وہ معلومات ہر بار حقائق پہ مبنی نہیں ہوتی۔ میں اعتراف کرتی ہوں کئی بار ایسا ہوا ہے کہ معلوماتی مضامین لکھتے وقت مجھ سے غلطی ہو جاتی ہے کبھی الفاظ قواعد کے اصولوں پہ پورے نہیں اترتے، کبھی اصل حقائق میں کوتاہی ہو جاتی ہے۔
مگر آفرین ہے کبھی کسی ویب سائٹ انتظامیہ یا اخبار کے مدیر نے تحریری مواد پڑھ کر غلطی کی نشاندہی نہیں کی۔ بلکہ قاری کی طرف سے کمنٹ میں اس غلطی کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔ میں ہمیشہ کوشش کرتی ہوں کہ میرا لکھا مواد اگر ڈیجیٹل میڈیا پہ شائع ہوتا ہے تو میں کمنٹس ضرور پڑھوں کیونکہ وہ کمنٹ بسا اوقات اصلاحی نوعیت کے ہوتے ہیں۔
جس میں مضامین، کہانیوں یا کالمز کی تکنیکی غلطیوں کی نشاندہی ہوتی ہے اور ان کمنٹس کو پڑھ کر مجھے اپنی تحاریر کی غلطیوں کا بھی پتہ چل جاتا ہے کہ جس جگہ اصلاح ضروری تھی۔ مگر کیا ہی اچھا ہو کہ کاتب پہلے خود اپنے مواد کو دو تین بار غور سے پڑھے ہاں تحقیقی مضامین لکھتے وقت حقائق میں کوتاہی ہو سکتی ہے مگر کوشش کی جائے وہ بھی نہ ہو۔ قواعد اور ٹائپنگ کی اغلاط دو تین بار پڑھنے سے واضح ہو جاتی ہیں۔
اس کے بعد اگر پھر بھی کمی بیشی رہ جائے تو ان غلطیوں کی درستی اشاعتی ٹیم کی طرف سے ہو۔ کم از کم شائع کرنے سے پہلے اس مواد پہ گہری نظر ثانی کریں۔ پھر اس مواد کو شائع کیا جائے۔ افسوس ناک امر ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیمی نوعیت کے روزگار کو فضول سمجھا جاتا ہے۔ آپ کسی ویب سائٹ یا پیج کے لیے ایڈمنز اور مورڈیٹر کے اشتہار دیکھ لیں۔ ہمیشہ رضاکارانہ کام کرنے والوں کو دعوت دی جائے گی۔
یعنی جو فارغ لوگ جنہیں عام گھریلو زبان میں ویلے کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے لوگوں کے لیے عام دعوت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ کیا پروف ریڈ کریں گے اور کیا ایڈیٹنگ، اور کیا تحریر کو اپرو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔ پھر جو مواد شائع ہو کے قاری تک پہنچے گا وہ بھی ایسا ہی ہو گا۔ لکھنے والوں کو بھی عام دعوت ہوتی ہے جو چاہے تحریر بجھوا دے مگر معاوضے کا ذکر الف سے ے تک نہیں، یعنی اوپر سے نیچے تک سارے مفت کے ملازم ہوتے ہیں۔
اخبارات اور رسائل کے ساتھ بھی یہ ہی معاملہ ہے مفت کے لکھاری جتنے دستیاب ہوں سو بسم اللہ۔ کوئی انکار نہیں۔ اور ان اداروں میں کام کرنے والوں کی تنخواہ بھی کچھ ایسی پرکشش نہیں ہوتی کہ کام جی جان مار کے کیا جائے۔ اگر اشاعتی ادارے چاہے وہ ڈیجیٹل ہوں یا پرنٹ، معاوضہ دے کر مواد کی اشاعت کریں تو مجھے یقین ہے الف سے لے کر ے تک یعنی نیچے سے اوپر تک ہر بندہ کام ذوق و شوق اور دینداری سے کرے گا۔
مگر ان اداروں کے بھی بہت سے مسائل ہیں کاغذ کی قیمت روز بروز آسمان کی اونچائیاں چھو رہی ہے کتاب، اخبار، رسالہ کوئی خرید کر پڑھنا پسند نہیں کرتا۔ ان حالات میں ملازمین کی مناسب تنخواہوں کا بندوست ہو جائے تو غنیمت ہے۔ ویب سائٹس کے بھی مالیاتی مسائل بہت سارے ہیں تو ان سارے جھمیلوں میں ادیب کے ہاتھ اپنے تحریری مواد کا معاوضہ ایک فیصد بھی نہیں آتا۔
اب ان سارے مسائل سے گزر کر جو تحریری مواد قاری تک پہنچے گا کیا وہ مستند اور اغلاط سے پاک ہو گا؟