Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hania Irmiya/
  4. Kehte Hain Log Tujh Ko Maseeha Magar Yahan

Kehte Hain Log Tujh Ko Maseeha Magar Yahan

کہتے ہیں لوگ تجھ کو مسیحا مگر یہاں!

یا مسیحائی اسے بھول گئی ہے محسن

یا پھر ایسا ہے میرا زخم ہی گہرا ہو گا

والٹن روڈ پیر کالونی لاہور میں تقریباً چھے سال پہلے سڑک پہ کھڑے ایک بائیس سالہ لڑکے نے اپنی بڑی بہن اقصیٰ کو اسکے سسرال میں فون کیا حال احوال پوچھا اور اپنی طبیعت کے متعلق بھی بتایا کہ آپی ٹانگوں میں شدید درد ہے امی کو نہیں بتایا پریشان ہو جاتی ہیں ابھی کچھ دیر تک ڈاکٹر ذکا کی ڈسپنسری کھلے گی تو چیک کراؤں گا، بخار بھی ہو رہا ہے۔

جوان لڑکا تھا بخار اور نزلے کو معمولی لیا اور چھے بجے ڈاکٹر ذکا کے کلینک کھلتے ہی اس کے پاس جا پہنچا، ڈاکٹر چونکہ اسی محلے کا تھا لڑکے کو جانتا بھی تھا چیک کرنے کے بعد بولا "نزلہ زکام تو موسم کی تبدیلی کے باعث ہے جسکی وجہ سے بخار بھی ہے ہاں مگر تیز بخار کے باعث جسم درد ہے درد سے آرام کے لیے انجکشن لگاتا ہوں اور یہ دوا بھی استعمال کرو ٹھیک ہو جاؤ گے۔

بخار تیز تھا عدیل کلینک کے بعد گھر گیا گھنٹے دو گھنٹے تک جس ٹانگ پہ انجکشن لگا تھا اس میں درد بڑھنے لگا نو بجے کے قریب درد شدید ہوا تو عدیل دوبارہ ڈاکٹر ذکا کے کلینک چلا گیا۔ ڈاکٹر ہنسنے لگا اور بولا۔ اوہ جوان بچہ بن، تو کوئی کڑی تے نہیں، شاباش میرا بچہ جا آرام کر۔ ٹھیک ہو جائیں گا۔۔۔۔۔

عدیل دوبارہ گھر آ گیا رات گیارہ بجے تک درد شدت اختیار کر گیا بخار کی تپش اور ٹانگ سمیت پورے جسم میں بےچینی گھر والے اس کی حالت دیکھ اسے "نیشنل اسپتال ڈیفنس" لے گئے ڈاکٹروں نے مکمل معائنہ کے بعد کہا کہ اسے جو انجکشن لگا ہے اس کی معیاد ختم ہو چکی تھی وہ ٹیکہ ایکسپائر تھا اور اب زہر ٹیکے والی جگہ سے بڑھتا ہوا پوری ٹانگ میں پھیل چکا ہے جس کی وجہ درد شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ٹانگ فوری کاٹنی پڑے گی ورنہ زہر پورے جسم میں پھیل جائے گا۔

"گھر والے مرتے اب کیا نہ کرتے" عدیل کی جان بچانے کی خاطر اسپتال کے کاغذات پہ ٹانگ کاٹنے کی حامی بھر دی مگر صبح کے چار بجے کے قریب جس وقت عدیل کے آپریشن کی تیاری کی جا رہی تھی اس کی حالت بگڑنے لگی آپریشن کو ملتوی کر کے ڈاکٹرز نے کہا یہ کیس اب ہمارے بس کا نہیں زہر پورے جسم میں پھیل رہا ہے اسے جنرل اسپتال لے جائیں۔

گھر والے بھاگم بھاگ اسے ایک اسپتال سے دوسرے میں لے گئے کیونکہ ایسے کیسز پرائیویٹ اسپتال والے اپنے سر سے اتار کر سرکاری اسپتالوں پہ ڈال دیتے ہیں خیر اسے سرکاری اسپتال لے جایا جانا بھی بےسود ثابت ہوا، زہر پورے جسم میں پھیل چکا تھا اور بنا علاج کے ہی چوبیس گھنٹوں سے پہلے وہ ہنسنے کھیلنے والا لڑکا قبر کی نظر ہو گیا۔ عدیل کے گھر والے تو یوں تھے جیسے سبھی اس کے ساتھ مر گئے ہوں۔

اس واقعے پہ خوب احتجاج ہوا سٹی 42 نیوز چینل والوں نے بھی اس خبر کی کوریج کی۔ لوگوں کے احتجاج کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈاکٹر ذکا کے کلینک کو سیل کر دیا گیا مگر دس سے گیارہ ماہ بعد کلینک دوبارہ اپنے اثر و رسوخ اور رشوت کی ٹافیاں کھلانے کے بعد کھل گیا اور پھر کچھ وقت بعد ویسے ہی مریضوں کا تانتا بندھ گیا۔

یہ فقط ایک عدیل کی مسئلہ نہیں اور نہ ہی یہ کوئی فرضی کہانی ہے یہ سچا واقعہ ہے جس میں ڈاکٹر کی نااہلی کی وجہ سے ایک متاثرہ خاندان تمام عمر کے لیے اپنے پیارے سے محروم ہو گیا۔ ان کلینکس پہ اینٹی بائیوٹک اور پین کلر انجکشن کا استعمال عام بات ہے مریض کو اس سے فوری آرام ملتا ہے اور ڈاکٹر قابل مانا جاتا ہے اس کے علاوہ کھلے پیکٹوں میں رنگ برنگی گولیاں (ٹیبلٹس)دینا، جن کے نام کے لیبل کا بھی کچھ اتہ پتہ نہیں کہ ڈاکٹر نے کس کمپنی کی دوائی مریض کو دے دی ہے۔ کچھ اور ایسے ڈاکٹرز کی نااہلی کے واقعات آپ احباب کی نظر ہیں جو متاثرہ خاندانوں سے ان کے پیاروں کو لے گئے۔

دو سال پہلے 2019 جولائی ایک حاملہ خاتون(رہائشی لاہور) حمل کے پانچویں مہینے، اپنے علاقے کی ڈاکٹر "صفیہ ناز" کے پاس خراب طبیعت کی عرض لے کر گئی۔ اس کے بعد ڈاکٹر بیس بائیس دن کے وقفے سے اسے کلینک بلاتی تھی آٹھویں مہینے کے پہلے ہفتے میں ڈاکٹر نے بتایا کہ ماں کی اندرونی حالت ٹھیک نہیں بچہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے فوری آپریشن کرنا پڑے گا ورنہ بچے کی جان کو خطرہ ہے مزید اس نے یہ بھی کہا کہ وہ کلینک میں آپریشن نہیں کرتی آپریشن کے لیے انھیں ڈیفنس میں موجود "عادل اسپتال" میں جانا پڑے گا کیونکہ ایسے میجر(بڑے) آپریشنز کلینک میں کرنا ممکن نہیں۔

مریضہ اور بچے کی حالت کا سن کر لواحقین نے کہیں اور جانے کا سوچا تک نہیں، فوری اسپتال جانے کا ارادہ کیا بچہ پیدا ہوا وہ چونکہ اپنے مخصوص وقت سے 45 دن پہلے پیدا ہوا تھا اسے بیرونی جراثیم سے بچانا اشد ضروری تھا اسے اینٹی بائیوٹک انجکشنز اور انکیوبیٹر (inqubator) (ایک ششیہ نما ڈبہ ہوتا ہے جس میں بچے کو انتہائی حفاظتی نگہداشت میں رکھا جاتا ہے) کی ضروت تھی انکیوبیٹر تو دور بچے کو نرسری میں دروازے کے قریب کوڈ میں لٹایا گیا دوسرے دن یرقان کی شکایت پہ اس کی قمیض تک اتار کر نیلی شاعوں میں لٹا دیا گیا ماں کو تیسرے دن چھٹی دے دی گئی پانچ دن بعد گھر والوں کو افراتفری میں اسپتال آنے کا کہا گیا کیونکہ بچے کی حالت بےحد بگڑ چکی تھی وقت سے پہلے پیدا بچے کو تیسرے دن فیڈر دے دیا گیا ڈاکٹرز یا نرسز کو کیا یہ بھی معلوم نہیں کہ 45 دن پہلے پیدا ہوا بچہ حفاظت مانگتا ہے پانچویں دن جب دودھ پلانے کے بعد دو بار کی گئی الٹی میں دودھ کے ساتھ خون آنے لگا تو بچے کے باپ کو بلایا گیا کہ اس کی حالت ٹھیک نہیں، اسے آپ چلڈرن اسپتال لے جائیں وہاں جدید مشینری اور بہترین نرسری ہے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بچے کا بچنا مشکل ہے بل دینے سے پہلے بچے کے باپ سے ایک فارم پہ دستخط کروائے گئے کہ اگر بچے کو کچھ بھی ہوا تو اسپتال ذمے دار نہ ہوگا اس کے بعد ڈسچارج فارم بنایا گیا اور بل پیش کیا گیا شریف اور سادہ متوسط درجے کے لوگ تھے سب کرتے تھے چپ کر کے اسے چلڈرن اسپتال لے گئے وہاں پہلے تو داخلہ ملنا مشکل تھا دو تین لوگوں کی سفارش سے بچے کا علاج شروع ہوا مگر ڈاکٹرز نے بتایا کہ بچے کے جسم میں انفکشن اس قدر پھیل چکا ہے کہ اب اس کی خون کی نالیوں میں بھی پانی اتر ہے سانس اس کا بگڑ چکا ہے کیونکہ یہ شدید نمونیے کی لپیٹ میں ہے، دو دن چلڈرن اسپتال رہنے کے بعد بچہ جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔

چلڈرن اسپتال کا بھی مختصر احوال سنیے یہ پاکستان میں بین الااقوامی تعاون سے بنا بچوں کا بہترین اسپتال، جدید مشینری سے لیس، مریضوں کو یہاں دوائیں بھی مفت دی جاتی ہے مگر یہاں آپ کو وینٹیلیٹر(vantilator)نہیں ملے گا اور اس کے مدمقابل جو مصنوعی سانس فراہم کرنے والا آلہ ایمبو (Ambo)مریضوں کو تھمایا جاتا ہے اس کا استعمال ان پڑھ تو کیا تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی نہیں معلوم۔ خیر اس وقت یہ ایک الگ موضوع بن جائے گا جسکا ذکر پھر کبھی سہی۔

اس اسپتال میں مریضوں کا تانتا بندھا رہتا ہے یہاں آپ کو غربت اور مجبوری کا ایسا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ انسان اپنی ساری پریشانیاں بھول جاتا ہے اس اسپتال کے مریض ایسے بےزبان ہیں جو نہ تو بول کر اپنی تکلیف بتا سکتے ہیں اور نہ ہی اشاروں میں سمجھا سکتے ہیں غریب والدین اپنے بچوں کی زندگی کی آس لگائے اسپتال کے گراؤنڈ میں لاوارثوں کی طرح پڑے ملتے ہیں چیئرٹی (خیراتی اداروں اور تنظیموں) کی طرف سے ملنے والی خوراک پہ ٹوٹ پڑتے ہیں کیونکہ خود کی جیب بھری ہوتی، تو اپنے بچوں کو ایک ہی بستر پہ چار سے پانچ مریضوں کے ساتھ لیٹانے کا حوصلہ کون کرتا ہے وہ پرائیویٹ اسپتال ہی جاتے ہیں اس اسپتال میں مریضوں کی تعداد اس قدر اور بیماریاں ایسی درد ناک ہیں کہ انسان سن کر کئی دنوں تک اللہ توبہ اور شکر کرتا ہے کہ اگر میری اولاد تندرست ہے تو رب تیرا شکر ہے باقی تمام سرکاری اداروں کی طرح اس اسپتال کا چپڑاسی اور جمعدار بھی آپ سے زیادہ پہنچ رکھتا ہے ڈاکٹرز اور نرسز روزانہ کی بنیاد پہ درد، تکلیف اور مجبوری کا منظر دیکھ دیکھ کر مضبوط جگر اور حوصلے والے ہو جاتے ہیں ان کے لیے مریض صرف ایک بیماری ہے جس کے لیے احساس و نرمی کی گنجائش نہیں۔

چلڈرن اسپتال کے شعبہ اطفال نیورو وارڈ کے پروفیسر اور دو تین اور بڑے ڈاکٹرز اس سرکاری اسپتال کے علاوہ برکت مارکیٹ لاہور کے گردو نواح میں قائم ایک "میڈیکل کمپلیکس" میں بھی مریضوں کو دیکھتے ہیں جو صاحب حیثیت لوگ چلڈرن اسپتال جانا نہیں چاہتے وہ اس میڈیکل کمپلیکس میں اپنے بچوں کو علاج معائنہ کے لیے لے کر آ جاتے ہیں آج سے چار سال قبل ایک شادی شدہ جوڑا جنکا بچہ ابنارمل تھا یعنی ریڑھ کی ہڈی ماں کے پیٹ میں ہی نہ بن پائی وہ ٹانگوں سے معذور تھا اور اس کے سر میں پانی کی مقدار عام بچوں کی بہ نسبت بہت زیادہ تھی جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی تھی نیورو سرجنز کے مطابق اس کے سر میں شنٹ(ایک باریک نالی) ڈال کر سر کے پانی کو گردوں میں ٹرانسفر کرنا تھا تاکہ سر اور آنکھوں کے خلیوں کو بچایا جا سکے ٹانگوں کا علاج تو الگ معاملہ تھا خیر اس جوڑے نے باہمی مشورے سے شنٹ ڈلوانے کا فیصلہ کیا وہ بچہ ابنارمل ضرور تھا مگر اپنی ماں کی کل کائنات تھا وہ اسے ایک کھلونے کی طرح اٹھائے پھرتی تھی بچہ ماں سے بےحد مانوس تھا۔

آپریشن سے پہلے سر کے پانی کی بائیو آپسی (پانی کی جانچ کہ وہ صاف ہے یا جراثیمی)کے لیے آپریشن تھیٹر لے جایا گیا ماں نے ہنستا کھیلتا بچہ ڈاکٹرز کے حوالے کیا ایک سال چار ماہ کا بچہ جو صرف ماں یا قریبی لوگوں سے مانوس تھا تین چار انجان چہرے، سفید کورٹ پہنے، دیکھ خوفزدہ ہو گیا اور بری طرح رونے لگا ہونا تو یہ چاہیے کہ اس شدت سے رونے پہ بچے کو یا تو بہلایا جاتا یا ماں کو واپس دے دیا جاتا کہ اس کی حالت خراب ہو رہی ہے وہ اس پہ تجربے کرتے رہے آدھے گھنٹے بعد جب بچہ باہر لایا گیا تو وہ اس قدر سہم چکا تھا کہ اس کو سانس بھی ٹھیک طرح سے نہیں آ رہا تھا وہ نمونیے کا بھی مریض تھا اس کی حالت دیکھ کر جنرل فزیشن نے کہا صرف دو گھنٹے ہیں اسکے بعد بچے کے زندہ رہنے کی امید نظر نہیں آ رہی پتہ نہیں اسے کہاں درد و تکلیف تھی کہ وہ ایسی شدت سے روتا تھا کہ آس پاس کے دیکھنے والوں کا دل اس کے آنسوؤں سے پھٹنے لگا مگر افسوس مسیحا کہلوانے والوں کا دل ذرا نہ پسیجا۔

اور یہ تمام واقعات لاہور کے مختلف ڈاکٹروں اور اسپتالوں کی زندہ داستانیں ہیں۔

میں یہ نہیں کہتی کہ سبھی ڈاکٹرز ایسے ہیں کچھ اپنے پیشے سے محبت رکھنے اور انسانیت کا احساس رکھنے والے بھی موجود ہے اور یہ دنیا انہی اچھے لوگوں کے دم قدم سے آج تک چلتی قائم و دائم ہے۔

Check Also

Irani Sadar Ka Dora, Washington Ke Liye Do Tok Pegham?

By Nusrat Javed