Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Gadagar

Gadagar

گدا گر

تقریباً ایک سال پہلے کی بات ہے۔ رکشے والے کا فون آیا۔ باجی دو تین دن نہیں آ سکوں گا۔ فوتگی ہو گئی ہے۔ گاؤں جا رہا ہوں۔ اب دو تین دن کالج سے چھٹی مشکل تھی۔ سوچا میڑو پہ چلی جاتی ہوں۔ سٹاپ گھر سے ذرا فاصلے پہ تھا۔ خیر صبح تو چلی گئی۔ دوپہر کو آنا مشکل لگ رہا تھا۔ یہ کوئی دو سے ڈھائی بجے کا ٹائم ہو گا۔ میں کسی سوچ میں چلتی آ رہی تھی۔ دور سے ایک بزرگ شخص نظر آیا۔ ذرا قریب آئی۔ تو اُس نے آواز لگائی۔ اے تی رانی۔ میں حیران رہ گئی کیونکہ میں اُسے نہیں جانتی تھی۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا۔ میرے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ تھی رانی تو، ہاں ادر آ۔ پہلے پیار تے لے۔

مجھے لگا شائد کوئی پاگل ہو گا۔ پھر سوچا، ہو سکتا ہے بڑھاپے کی وجہ سے اپنے حواسوں میں نہیں۔ میں بنا جواب دئیے چلنے لگی۔ مگر وہ خود ہی قریب آیا اور سر پہ ہاتھ رکھا۔

اب وہی سادہ فطرت، مجھے لگا۔ شائد کوئی ولی، بزرگ ہو۔ یا کوئی نیک روح۔ اللہ کو میرا کوئی عمل پسند آ گیا ہو۔ جو یہ بزرگ بنا جان پہچان دعا دئیے جا رہا ہے۔ مگر وہ سر پہ ہاتھ رکھتے ہی فوراً بولا۔

تی رانی۔ کیتھے سی اینے دن۔ چاچا تیرا پھوکا کوئی چاہ دے پیسے دے۔۔

فوراً خیال بدلا۔ اوہ یہ فقیر ہے شائد حواس گم ہو چکے ہیں اس کے۔ اسی لیے کسی سے بھی بات کرنے لگتا ہے۔ میں نے پرس سے پچاس کا نوٹ نکال کر اسے دے دیا۔ اور آگے چل پڑی۔ شام میں یہ واقعہ میں نے گھر والوں کو بتایا۔ وہ سب میرے پیچھے پڑ گئے۔ تمھارا دماغ ٹھیک یے۔ وہ جانے کون تھا کون نہیں۔ تم اُس سے سر پہ ہاتھ رکھوا کے دعا لینے چل پڑی۔ کوئی نشئی ہو سکتا تھا۔ کسی گروہ سے اُس کا تعلق ہو سکتا تھا۔ تمھیں ذرا خوف نہیں۔

میں نے جواب دیا۔ کہ پہلے تو مجھے وہ کوئی نیک بزرگ لگا۔ بعد میں مجبور اور ہوش سے عاری فقیر۔

والدہ غصے سے بولیں۔ نیکی کماتے کماتے کسی مشکل میں نہ پڑ جانا۔ کہ اُس غلطی کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑے۔ اللہ جانے وہ کون تھا۔ ایسے لوگ سنسان سڑک پہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ تمھیں نشہ آور چیز سونگھا دیتا۔ تو کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ رکشے والے کی چھٹی تک تم بھی چھٹی کر لو۔ یہ بہتر ہے۔

بات ویسے ٹھیک تھی جو مجھے دیر بعد سمجھ آئی۔ کیونکہ ایسے کئی واقعات ہم پڑھتے اور سنتے بھی رہتے ہیں۔ اور مجھے اس تمام صورتِ حال کو گہرائی سے سوچتے ہوئے وہ واقعہ یاد آ رہا تھا۔ جب میں اور میری ایک سہیلی بی۔ ایڈ کے پیپرز کے لیے داتا دربار کے باہر سے گزرا کرتے تھے۔ کیونکہ امتحانی مرکز دربار سے ذرا فاصلے پہ تھا۔ ایسے ایسے فقیر نظر آتے تھے۔ کہ رب کی پناہ۔ ایک بار تو سبز چغہ پہنے ایک خاتون ایسے پیچھے پڑی۔ کہ جان چھڑانا مشکل ہو گیا۔

گداگروں کی شہر میں بڑھتی ہوئی تعداد سے یہ پہچاننا مشکل ہو گیا کہ صدقہ خیرات کے قابل آخر کون لوگ ہیں۔ لاہور شہر کے کسی بھی علاقے سے گزریں۔ گراگروں سے سامنا نہ ہو، ناممکن ہے۔ بڑے بڑے بازاروں اور سڑکوں پہ تو حالت دگر گوں ہے ایک سے جان چھڑاوں دوسرا سامنے آ جاتا ہے۔ بیکری، ریسٹورنٹس یا پھر جنرل سٹورز یہ باہر کھڑے آپ کو منتظر ہی ملیں گے یہاں تک کہ پارکس میں بھی آپ ان سے نظر بچا کر سکون سے بیٹھ نہیں سکتے۔ یہ آپ کو ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔

یہ لوگ جگھی واس ہوتے ہیں۔ ریلوے لائنز کے آس پاس، پل کے نیچے، یا پھر رہائشی علاقوں سے ہٹ کے اپنے جھگیاں بناتے ہیں۔ ان کے بچے بھی اپنے آبائی کاروبار سے تین چار سال کی عمر سے ہی واقف ہوتے ہیں۔ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے کیسے آپ کے پیچھے پڑ کر روپے نکلوانے ہیں۔ آپ ان لوگوں کو کھانے کی آفر کریں۔ اگر ان کی من پسند چیز ہو۔ تو لے لیں گے ورنہ یہ پیسے لینے پہ اصرار کریں گے۔ ان کے مرد جھگیوں میں آرام کرتے ہیں اور عورتیں بچوں کو لیے مانگنے نکلتی ہیں۔ ان کی روزانہ کی کمائی دو ہزار سے چار ہزار تک ہوتی ہے۔ ان کے ہاں بچوں کی افزائش بھی بڑی تیز رفتاری سے ہوتی ہیں۔ خواتین بنا ڈاکٹر، بنا اسپتال کے بچے پیدا کرتی ہیں اور وہ بھی صحت مند اور تندرست، اس کے علاوہ نہ ہی ان بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوائے جاتے ہیں۔ اور نہ ہی سردی، گرمی سے بچاؤ کی تدابیر کی جاتی ہیں۔ تعلیم اور تربیت سے محروم یہ بچے بھی اپنا مخصوص پیشہ ہی اپناتے ہیں۔ گداگری کے علاوہ ان کی آمدن کو اور کوئی ذریعہ نہیں۔

ان پیشہ ور گداگروں کی وجہ وہ ضرورت مند طبقہ جو حقیقتاً امداد کا مستحق ہے وہ اس حق سے محروم ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ بزرگ اور درویش ہیستوں کی پہچان بھی اس پیشے کی وجہ سے گم ہو گئی ہے۔ راستوں پہ گداگروں کی بھرمار سے درویش صفت لوگ ختم ہو گئے جو سرِ راہ کبھی مل جایا کرتے تھے۔

اس کے علاوہ یہ ایک گھناونا کاروبار بھی بن چکا ہے۔ یہ لوگ صرف آپ کے پیچھے پڑ کر روپے ہی نہیں نکلواتے بلکہ اس شعبے میں ایک خطرناک گروہ بھی ملوث ہے۔ جو موقع ملتے ہی بچوں کو اغوا کرتا ہے۔ پھر اُن بچوں کو اس پیشے پہ لگایا جاتا ہے۔ اور افسوس ناک بات اغوا شدہ بچے بھاگ نہ جائیں۔ اس خوف سے بچنے کے لیے اُن بچوں کو معذور بنا دیا جاتا ہے۔

گداگری ایکٹ کے تحت پولیس اگر چاہے تو انھیں گرفتار بھی کر سکتی ہے مگر المیہ یہ کہ ہمارے معاشرے سے برائی کا ختم ہو جائے۔ ایسا ممکن کب ہے؟

Check Also

Imf Aur Pakistan, Naya Magar Shanasa Manzar

By Khalid Mehmood Rasool