Azadi Ki Tareekh
آزادی کی تاریخ
جوانو نذر دے دو اپنے خون دل کا ہر قطرہ
لکھا جائے گا ہندوستان کو فرمان آزادی
برصغیر پاک و ہند ایک وسیع و عریض خطہ زمین جس کی تاریخ صدیوں سال پرانی ہے۔ اس سرزمین کی تقسیم کے بعد موجودہ وقت میں تین الگ ریاستیں بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پہ جلوہ فرما ہیں۔ ماضی میں متحدہ ہندوستان جنوبی ایشا میں ایک عظیم و طاقتور ریاست تھی۔ جس کا قدیم نام سرزمینِ ہند تھا جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ ہندوؤں کی زمین تھی اور ان لوگوں کا آبائی مذہب بت پرستی تھا۔ پھر 712 میں محمد بن قاسم کے ذریعے دینِ اسلام اس سرزمین میں داخل ہوا۔ لیکن اس سے پہلے عرب تاجر جنوبی ہند میں تجارت کی غرض سے سفر کرتے رہتے تھے۔ وادی مکران میں مسلمانوں نے پہلی لڑائی 644 اور دوسری لڑائی 645 میں راجا دہر کے خلاف لڑی۔ مگر 712 میں محمد بن قاسم نے ظالم راجا دہر کو شکت دے کر سندھ فتح کر لیا اُس کے بعد محمود غزنوی نے ہندوستان پہ سترہ حملے کیے۔ محمود غزنوی کے بعد شہاب الدین غوری نے بنگال اور بہار تک کا علاقہ فتح کر لیا۔
1206 سے 1526 تک یہاں دہلی کے سلاطین کی حکومت رہی۔ 1526 سے ہندوستان پہ مغلیہ سلطنت کا آغاز ہوا۔ پہلا مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر تھا۔ 1707 میں اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوا۔ سکھوں اور مرہٹوں نے بغاوت کر دی۔ برطانوی تجارت کی غرض سے سر زمین ہند میں داخل ہونے لگے۔ اور دھیرے دھیرے ملک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لینے لگے۔یورپی تاجروں نے یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کر لی۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے انگریزوں کی ملکی معاملات میں بڑھتی مداخلت کے جواب میں ان کے خلاف اعلانِ جنگ کیا مگر اپنوں کی غداری اور سکھوں اور ہندووں کی سازشوں سے مغلیہ فوج کے حوصلے پست ہو گئے۔ مسلسل سازشوں اور فوج میں بددلی کے باعث 20ستمبر1857ءکو بہادر شاہ ظفر نے میجر ولیم ہڈسن کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ اس وقت بہادر شاہ ظفر کے دو بیٹوں نے نا تجربہ کاری کے باوجود فوج کی کمان سنبھالی ہوئی تھی۔ بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری کے بعد ان دونوں مغل شہزادوں کا سر کاٹ کر ایک کھانے کے ٹرے میں رکھ کر تاجدارِ ہند کو پیش کیے گئے۔ بہادر شاہ ظفر کو یرغمال بنا کے اسے رنگون (برما) لے جا کے نظر بند کر دیا۔ اور وہ مرتے دم تک اسی جگہ رہا۔ اور یوں 1857 کی جنگ میں ناکامی کے بعد متحدہ ہندوستان پہ مسلمانوں کی سینکڑوں سالہ حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔
پھر شروع ہوا مسلمانوں کی بدحالی کا بدترین دور، فاتح انگریزوں کا سارا غصہ مسلمانوں پر نکلا۔ چاندنی چوک میں مسلمانوں کو پھانسیاں دی جاتیں۔ اور انگریز خواتین اور مرد تماشا دیکھتے۔ مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط کی گئیں اور جو مسلمان کی مخبری کرتا وہ نوازا جاتا۔ جو ان کے حق میں کچھ کہتا وہ معتوب بنتا۔ انگریز مسلمانوں کو ہر طرح سے تباہ کرنے کے درپے تھے۔ مسلمانوں کے لیے مسلمان ہونا ہی ایک بہت بڑا جرم تھا۔ ان پہ تعلیم، سرکاری ملازمتوں اور کاروبار کے دروازے بند تھے۔
مگر عظیم مسلمان راہنماؤں کی کاوشوں نے تاریخ رقم کی۔ جنگِ آزادی کے بعد سب سے پہلے سر سید احمد خان مسلمانانِ ہند کی مدد کے لیے آگے بڑھے۔ گو کہ 1857 کی جنگ میں انھوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا اور اپنے ہم وطنوں سے بے وفائی کی۔ سرسید کا خاندان مغل بادشاہوں سے وابستہ تھا۔ ان کے نانا مغل دربار میں وزیر اعظم بھی رہے تھے۔ لیکن سرسید نے شروع ہی سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملازمت اختیار کی۔ مگر جنگ آزادی کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کی بدحالی نے سرسید کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ احمد خان نے بڑی جرأت سے مسلمانوں کی حمایت کے لیے قدم بڑھایا۔ آپ کا اہم ترین کارنامہ مسلمانان ہند میں تعلیم کا فروغ ہے۔ سر سید کو جنوبی ایشیا میں جدید تعلیم کا بانی کہا جاتا ہے ان کی ہی بدولت مسلمانوں پہ پھر سے ترقی کے دروازے کھلنے لگے۔ علی گڑھ کالج نے تحریک پاکستان کے لیے بقول قائداعظمؒ اسلحہ خانے کا کام دیا۔ سرسید قلم کے بہت بڑے داعی تھے ان کے قلم نے کئی نایاب تصانیف تاریخ وادب کو بخشیں۔ ان کی کتاب"اسبابِ بغاوتِ ہند" کے انگریزی ترجمے نے برطانیہ میں تہلکہ مچا دیا۔ علی گڑھ تحریک نے مسلمانانِ ہند کو نایاب ہیروں سے نوازا۔ اس ادارے نے کئی عظیم راہنما پیدا کیے۔
مسلمانوں کی دیکھا دیکھی ہندو بھی میدان میں اتر آئے۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کے باہمی اشتراک سے ایک سیاسی جماعت کانگرس تشکیل دی گئی۔ مگر ہندوؤں کی طرف سے مسلم دشمنی کبھی ڈھکے چھپے طریقے سے اور کبھی کھلے عام منظر عام پہ آنے لگی۔ اردو ہندی تنازعہ، تقسیمِ بنگال کی مخالفت، نہرو رپورٹ، گائے کے ذیبحہ پہ فسادات، بندے ماترم کا ترانہ، گاندھی کی مورتی کو سجدہ، مسلمان سوچ میں پڑ گئے کہ کیا انگریزوں کے جانے کے بعد وہ ہندوؤں کے ساتھ مستقبل میں اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ مسلمان بھی برصغیر میں کوئی معمولی اقلیت نہیں تھے۔ بےشک اُن کی تعداد ہندوؤں کے مقابلے میں بے حد کم تھی۔ لیکن اپنے ماضی کی تاریخ کے زیراثر وہ اقلیت کا کردار قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ ایک اندازے کے مطابق، ہندوستان میں اُس وقت تقریباً 40فیصد مسلمان آباد تھے۔
مسلمانوں کے ممتاز رہنماؤں، جن میں علامہ اقبال، قائداعظم بھی شامل تھے، نے پہلے مرحلے پر ہندوستان کے اتحاد اور مسلم ہندو یگانگت پر زور دیا اور ہندوستان کی وحدت کی بقا کے لیے آواز اٹھائی۔ لیکن مسلسل تجربات کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ کانگریس کی قیادت مسلمانوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے پر آمادہ نہیں تھی۔ اسی لیے 1906 میں مسلم لیگ کا قیام ہندوؤں سے علحیدگی کی جانب کا پہلا قدم تھا۔ اب مسلمان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اپنے حق کی بات کرنے لگے۔ جسے چاہتے نہ چاہتے انگریز حکمرانوں کو تسلیم کرنا پڑتا تھا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مسلم لیگ دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ ایک کی قیادت جناب قائد اعظم اور دوسرے کے صدر سر شفیع تھے۔ مگر گزرتے وقت کے ساتھ مسلمانوں کو یہ بات سمجھ آنے لگی کہ جیت اتحاد میں ہے۔ لہذا تمام مسلمانان ِ ہند کے متفقہ فیصلے سے مسلم لیگ جماعت کی صدارت قائد اعظم کو سونپ دی گئی۔ یہ 1936 کی بات ہے جب قائد اعظم ایک مدبر اور قابل سیاسی لیڈر کے طور پہ سامنے آئے۔ قائد اعظم نے باقاعدہ سیاست کا آغاز 1906 میں کانگرس جماعت میں شمولیت سے ہوا۔ 1913 میں مسلم لیگ کے رکن بنے آپ نے ایک عرصے تک ہندو اور مسلمانوں کے مشترکہ مفادات کے لیے آواز اٹھائی۔ مگر ہندو کی ذہنیت کو بھانپتے ہوئے 1920 میں مکمل طور پر کانگرس سے الگ ہوگئے۔ اُس کے بعد پھر آزادی کی جنگ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے لڑتے رہے۔
1930 کو ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اپنے خطبے میں جنوبی ایشیا کا تمام مسائل کا حل ؤاضح کرتے ہوئے فرمایا کہ بالآخر برطانوی حکومت کو مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کا قیام عمل میں لانا پڑے گا کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ مستقبل قریب میں سندھ، سرحد، بلوچستان اور پنجاب کو ملا کر ایک الگ مسلم ریاست بنا دی جائے گی۔
اس کے بعد کانگریسی وزارتوں کے دو سال 1937 سے1939تک الگ وطن کی فیصلہ سازی کے لیے بہت اہم تھے۔ ان سالوں میں قائد اعظم اور اُن کے رفقا نے انتھک محنت کی۔ رات کو دن کے فرق کو جانے بنا کام کیا۔ اور 1940 کی قرارداد لاہور کے منظور ہونے کے بعد مسلمانوں کو اپنی منزل صاف نظر آنے لگی۔
1939 سے 1945 تک کی دوسری عالمی جنگ نے دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا۔ اس جنگ کے درمیانی اوائل میں گمان تھا کہ روس غالب آ جائے گا لہذا کانگرس نے من مانیاں شروع کر دیں۔ مگر وقت نے پاسا پلٹا اور جنگ برطانیہ، امریکا اور اس کے اتحادی جیت گئے۔ اس جنگ کے بعد امریکا برطانیہ پہ زور ڈالنے لگا کہ برصیغر کا جلد از جلد مناسب حل نکالا جائے۔
راج گوپال اچاریہ کا کہنا تھا بھارت ماتا ہے اور ہندو اور مسلمان اس کے دو بیٹے، اور کونسا بیٹا اپنی ماں کے دو ٹکڑے کرتا ہے۔ گاندھی نے کہا کہ میری لاش پہ سے گزر کر پاکستان بنے گا۔ مگر قائد انگریزوں اور ہندوؤں کے ساتھ مذاکرات کے دوران صرف ایک بات پہ ڈٹے رہے تقسیم کے سوا برصغیر کا کوئی اور حل مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول نہیں۔
سن 45 اور 46 ان دوسالوں میں قائد نے انگریزوں کو ہر جگہ باور کرایا کہ مسلمان اور ہندو ہر لحاظ سے دو مختلف قومیں ہیں۔ ان کو ایک حکومت کے ماتحت کرنا خانہ جنگی کو فروغ دینا ہے لہذا اس خطے کے دو حصے کر دئیے جائیں۔ مسلم اکثریتی علاقہ مسلمان ریاست بنا دیا جائے اور ہندووں کی اکثریت والا حصہ انھیں دے دیا جائے۔ برطانوی حکمرانوں کو قائد اور مسلمانانِ ہند کے مضبوط ارادے کے آگے گھنٹے ٹیکنے پڑے۔ اور ہندوؤں کو منہ کی کھانی پڑی۔ پھر تاریخ نے وہ دستاویزات رقم کیں جب لارڈ ماونٹ بیٹن نے تین جون کا منصوبہ تشکیل دیا جس میں مسلمان اکثریتی علاقوں کو ملا کر ایک ریاست بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
اور اس طرح چودہ اگست کو برطانوی حکمرانوں نے دنیا کے نقشے پہ سرحد کھنیچ دی۔ اور متحدہ ہندوستان کے تمام مسلم اکثریتی علاقوں کو ملا کر اسے ایک آزاد اور خود مختار ریاست کا درجہ دے دیا۔ اور اُس کی دستاویز قائد اعظم کو تھما دی۔ اور یوں میرا اور آپ سب کا پاکستان وجود میں آ گیا۔ لیکن تمام برطانوی اہل کار 15 اگست صبح دس بجے سرکاری طیاروں میں بیٹھ کر اپنے ملک روانہ ہوئے۔ اور ہندو اکثریتی علاقوں کا تمام اختیار ہندوؤں کو سونپ دیا۔ اس لیے بھارت آزادی کا دن پندرہ اگست کا مناتا ہے۔
تو پیارے یہ تھی ہم سب کے ہردلعزیز پاکستان کے چودہ اگست کو یومِ آزادی منانے کی تاریخ۔