Angrezi Zuban Ke Tasallut Ki Tabah Kariyan
انگریزی زبان کے تسلط کی تباہ کاریاں
ہم پاکستانی وہ قوم ہیں۔ جو کبھی برصغیر پاک و ہند کے وسیع خطے کے حکمران تھے۔ اسلامی روایات اس علاقے کی پہچان تھیں۔ پھر ایک وقت وہ آیا، جب مغلیہ حکومت پست ہونے لگی (بمطابق ہندو مورخین سترھویں صدی) اورنگ زیب کی وفات کے بعد مغلوں کی حکومت مضبوط ہونے لگی۔ مگر ہماری تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اورنگ زیب کی وفات کے بعد مغلیہ حکومت ڈولنے لگی۔
کہنے کو تو مغل حکمران تھے۔ مگر پس پشت اقتدار مرہٹوں کے پاس تھا۔ پھر دھیرے دھیرے ہر منظر بدلنے لگا اور مؤرخ یہ بھی لکھتے ہیں کہ مغلوں کا تختہ انیسویں صدی میں ایسا الٹا کہ تخت و تاج تو گیا ساتھ ساتھ مغل نسل کا نام بھی مٹ گیا یہ وہ وقت تھا۔ جب مسلمان اور ان سے جڑی ہر شے (اسلامی روایات، تہذیب، فن، اور زبان) کو مسمار کیا جانے لگا۔
1837 میں انگریز حکمرانوں کے دورِ اقتدار میں متحدہ ہندوستان کی سرکاری زبان کا درجہ اردو کے سر بندھا۔ حالانکہ مسلم دور حکومت میں اس علاقے کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ مگر انگریزوں نے بڑی عیاری سے فارسی کی سرکاری اہمیت کو مٹی میں ملا کر اردو کو عزت بخش دی۔ 1837 سے پہلے گو کہ فارسی سرکاری زبان تھی، مگر اس علاقے میں عام بول چال کے لیے اردو، جسے ماضی میں کئی ناموں سے پکارا جاتا تھا۔
جیسے کہ دکنی، ہندی، ہندوی، لشکری، ریختہ، زبان کا استعمال صدیوں سے رائج تھا۔ یہ اس علاقے کی عام فہم زبان تھی، مگر اس خطے کو اپنے بس میں کرنے کے لیے انگریز اس زبان کو سیکھنے پہ مجبور تھے، لیکن جہاں انھوں نے اردو زبان کو سرکاری مقام بخشا وہیں بےحد ہوشیاری سے وہ اردو کی جڑیں بھی کاٹتے گئے اور ساتھ ساتھ انگریزی زبان کے بیج بوتے گئے۔
انگریزوں سے آنکھ سے آنکھ ملا کر بات کرنے کے لیے ہندوستانیوں کے لیے انگریزی زبان کی سمجھ بوجھ لازم تھی ورنہ وہ بات کرنے کے قابل نہیں سمجھے جاتے تھے۔ بس یہ ہی وہ دور تھا۔ جب اردو رفتہ رفتہ گرنے لگی اور انگریزی اس علاقے میں وجہ عزت بننے لگی۔ 1857ء جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد مسلمان امہ کی حیثیت متحدہ ہندوستان میں شودر ذات کے برابر ہو گئی تھی۔
مسلمان کو کسی جرم کی نہیں، بلکہ مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی تھی۔ برصغیر پاک و ہند پہ انگریزوں کے اقتدار کے بعد سرکاری اداروں کے باہر یہ ایک تحریر حقارت کے باعث لکھ دی جاتی تھی کہ "اس جگہ کتے اور مسلمان کا داخلہ ممنوع ہے۔ اس حقارت اور نفرت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انگریزوں نے مسلمانوں سے اقتدار چھینا تھا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ قوم دوبارہ کسی بھی طور سر اٹھانے کے قابل ہو پائے۔
ایسے مشکل حالات میں سر سید احمد خان جسے دورِ حاضر میں براعظم ایشیاء میں جدید تعلیم کا بانی کہا جاتا ہے۔ وہ سامنے آئے اور انھوں نے مسلمانوں کو عصری تقاضوں کے مطابق تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے کا مشورہ دیا، اور نہ صرف مشورہ دیا، بلکہ اس رائے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انگریزی تعلیمی اداروں کو قائم بھی کیا۔ بلاشبہ اس اقدام کے آڑے بہت سی مشکلات آئیں۔
انگریزی تعلیم اور اس سے وابستہ تہذیب ایک عام مسلمان کو کسی طور قبول نہ تھی، مگر اس دور میں اپنے قدم جمانے کے لیے اس کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہ تھا۔ مگر اس واحد راستے نے دھیرے دھیرے اردو زبان کے فروغ کے سبھی دروازے بند کرنے شروع کر دئیے۔ اردو زبان بے وقعت ہونے لگی۔ ہندی سے تو وہ 1867 میں ہی الگ ہو چکی تھی، اب اسے تن تنہا ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں سے جنگ لڑنا تھا۔
برصغیر پاک و ہند پہ انگریزی تسلط کے بعد اردو زبان کے مخالفین نے ایسا داؤ کھیلا کہ اردو اور ہندی جو کبھی ایک جسم ایک جان تھیں۔ ان دونوں کو قوم کے فرق کی بیناد بنا کر الگ کر دیا، حالانکہ اردو زبان بنیادی طور پہ سرزمینِ ہند کی پیدا کردہ زبان ہے۔ مگر اس ایک زبان کو جو کبھی ہندی، ہندوی، دکنی، ریختہ، لشکر اور اردو کے نام سے جانی جاتی تھی۔
اسے دو مختلف نام ہندی اور اردو میں مستقل تقسیم کر دیا اور اس تقسیم کو پھر دوبارہ کوئی یکجا نہ کر سکا اور نہ آئندہ کر سکے گا یہ تو متحدہ ہندوستان کی داستانِ الم تھی، مگر پاکستان آزاد ہونے کے بعد بھی اُردو زبان کو وہ مقام اور مرتبہ نہ دے سکا، جو کسی بھی ملک کی سرکاری زبان کا حاصل ہوتا ہے۔ کہنے والے تو آج بھی یہ ہی کہتے ہیں۔ انگریز کہنے کو تو سن انیس سو سینتالیس میں برصغیر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
مگر اپنی نشانی انگریزی زبان کی صورت میں یہاں چھوڑ گئے، اور ہم غلامی کے اسیر ایسے وفا پرست ثابت ہوئے کہ صیاد کی بخشی ہوئی نشانی کو آج تک گلے کا طوق بنا کر رکھے ہوئے ہیں۔ اردو تو کل بھی بے وقعت تھی، آج بھی دربدر ہے۔ سرکاری زبان کا درجہ تو اسے ملک بننے کے پچیس سال بعد مل گیا، جب مشرقی بنگال ہم سے الگ ہوا مگر سرکاری زبان کا حق پچھتر سال گزرنے کے بعد بھی ہم ادا نہ کر پائے۔
تعلیمی میدان ہو یا اعلی ملازمتیں، سرکاری تقاریب ہوں یا بین الاقوامی دورے یا پھر معاشی ترقی کی ریس، شکت ہی اردو زبان کا مقدر بنی ہے۔ تعلیم اردو زبان کے بغیر تو ممکن ہے، مگر نصاب میں سے انگریزی کا خروج ممکن نہیں۔ ملازمت سرکاری ہو یا ملٹی نیشنل پرائیویٹ ادارے، انٹرویو میں کامیابی کے لیے انگریزی پہ مہارت لازم ہے بلکہ بہت ساری ایسی ملازمتیں بھی ہمارے ملکی نجی اداروں میں موجود ہیں۔
جس کے لیے اردو زبان کا بولنا یا سمجھنا ضروری نہیں بلکہ انگریزی زبان کا ماہر ہونا ملازمت کی اولین شرط ہے۔