Adbi Chori
ادبی چوری
ادب فنونِ لطیفہ کی وہ شاخ ہے جسے "فنِ لطیف" بھی کہہ سکتے ہیں۔ میتھو آرنلڈ ادب کا تجزیہ یوں کرتے ہیں کہ "وہ تمام علم جو کتب کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے ادب کہلاتا ہے۔ "
کارڈ ڈینل نیومین ادب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ "انسانی افکار، خیالات اور احساسات کا اظہار زبان اور الفاظ کے ذریعے کرنا ادب کہلاتا ہے۔ "
مذکورہ بالا مفاہیم کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادب فن کی وہ شاخ ہے جس میں الفاظ کی ترتیب، افکار اور احساسات کا اظہار اس طرح کیا جائے کہ پڑھنے اور سننے والے میں مسرت کا احساس پیدا ہو۔ اور قاری اس سے محظوظ ہو۔ ادب نثر اور شاعری کی اصناف میں بٹا ہوا ہے۔ داستان، ناول، افسانہ کہانی، مضمون، خاکہ نگاری نثر کی اصناف جب کہ غزل، رباعی، نظم، مرثیہ، قصیدہ وغیرہ شاعری کی اصناف ہیں۔ ادب کی تشکیل ادیب کرتا ہے۔ یہ حساس طبیعت انسان معاشرے کا گہرائی اور عمیق نظری سے مشاہدہ کرکے اس کی اچھائی اور برائی، کمی اور خوبی، کثرت اور قلت کو قلم کی روشنائی میں گھول کر کاغذ پر ایک ایسے آئینے کی صورت میں سامنے رکھ دیتا ہے، جس میں معاشرہ اپنا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔
موضوع مضمون کے دوسرے اور اہم حصے کے متعلق بات کی جائے تو چوری کا لغوی معنی ہے خفیہ طریقے سے کسی اور کی چیز اٹھا لینا۔ مال کے علاؤہ چوری کی ایک قسم ادبی اصناف کو خفیتاً اپنے نام سے منسوب کر لینا ادبی چوری کے زمرے میں آتا ہے۔
ادبی اصناف کی چوری کو سرقہ، چربہ، نقل یا الفاظ میں ردوبدل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ عنوان پہ بحث سے قبل ان خرابیوں کے مفہوم جاننا لازمی ہے۔
سرقہ: (علمِ معانی) دُوسرے کے کلامِ یا مضمون کو (بغیر ماخذ بتائے ہوئے) اپنے کلام میں شامل کرلینا۔
چربہ: روغنی کاغذ، موم جامہ یا کاغذ و کپڑا جس پر چکنائی لگا کر نقش یا خاکہ کی ہو بہو نقل کرنا۔
ردوبدل: ایک تحریر کے الفاظ کی دوسری تحریر سے الٹا پلٹی۔
نقل: اصل کی جگہ بدل کر اسے دوسری جگہ لے جانا۔
سادہ الفاظ میں ادبی چوری کسی ادیب کی مکمل تحریر کو اپنا نام دے کر کسی دوسری جگہ شائع کروانا یا اس تحریر کے الفاظ کو ردوبدل کر کے اپنی تحریر میں شامل کرنا یا پھر کسی دوسرے کی تحریر کے مرکزی خیال کی نقل پہ اپنی تحریر کو لکھ دینا ادبی چوری کہلاتا ہے۔
ادبی چوری کی میں ایک واضح تصویر اپنے حوالے سے یہاں لکھنا ضروری خیال کروں گی۔ کئی سال پہلے جب میں نے لکھنا شروع کیا تو میں نے ایک غزل روزنامہ خبریں میں اشاعت کے لیے بجھوائی۔ جو اس اخبار کے ہفتہ وار میگزین میں شائع ہوئی۔ اس اشاعت کے تین ہفتے بعد وہی میری لکھی غزل ڈیرہ غازی خان کے ایک صاحب نے اپنے نام سے اشاعت کے لیے بجھوائی۔ وہ بھی شائع ہو گئی اصولاً تو بنا لکھے کوئی شخص کسی کی شاعری کو اپنے نام سے شائع کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ ہاں وہ اسے "میرا انتخاب" یا "میری پسند" کا حوالہ دے کر ضرور شائع کروا سکتا ہے۔ ایڈیٹر صاحب سے جب میں نے رابطہ کیا اور اپنی شکایت سے آگاہ کیا۔ تو ان کا جواب آیا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ اتنی سی بات پہ ہم معذرت لکھ کر آپ کی غزل دوبارہ آپ کے نام سے شائع نہیں کر سکتے۔ لوگ تو بڑے بڑے شاعروں کا کلام اپنا نام لکھ کر بھیج دیتے ہیں آپ کو تو ابھی کوئی جانتا بھی نہیں۔
میرے لیے اتنی عزت افزائی بہت تھی اس کے بعد میں نے خاموشی سے فون رکھ دیا کیونکہ ہم ادب کی چوری کو کوئی بڑا جرم نہیں سمجھتے۔
ادب کی چوری کی ابتدا حقیقاً زمانہ طالبعلمی سے ہی شروع ہو جاتی ہے جس وقت ایک بچہ اپنے دوست کو اپنی کاپی سے کام کرکے دیتا ہے یا اپنی کاپی نقل کرنے کے لیے اس کے حوالے کر دیتا ہے اور استاد آنکھ بند کیے دونوں کاپیوں پہ دستخط کر دیتا ہے پھر یہ چوری کی آنکھ مچولی بڑھتے بڑھتے امتحانات تک آتی ہے عملی امتحان کے مضامین کی کاپیاں بچے خود بنانے کی بجائے بازار سے تحریر شدہ خرید لیتے ہیں جسے پرنٹر اور دکاندار حضرات اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ پہلے کی استعمال شدہ کاپی کو بالکل نیا بنا دیا جاتا ہے سب جاننے کے باوجود بچے کو نہ تو والدین روکتے ہیں اور نہ ہی استاد۔ یوں یہ معمولی ردوبدل اور نقل ہماری زندگیوں کا حصہ بنتی جاتی ہے۔
بچوں کو آغاز سے ہی بتانا ضروری ہے کہ چوری صرف ایک خرابی نہیں بلکہ یہ گناہ کے مترادف ہے عصر حاضر میں بچے تن آسان ہو چکے ہیں اور وہ محنت کرنے کے بجائے ایسے حربے استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔ جس سے کام بھی ہو جائے اور اسمیں مشقت بھی نہ کرنی پڑے۔ وقت بھی کم صرف ہو اور کام بھی خوب ہو۔ یہ ہی تن آسانی نوجوانوں کو دھیرے دھیرے اخلاقی خرابیوں کی طرف لے کر جاتی ہے نوعمری میں کی گئی معمولی چوری، کاپیوں کی ہیر پھیر، نقل، بڑھتے بڑھتے ادبی چوری تک جا پہنچتی ہے جب نوآموز لکھاری بڑے ادبا کی تصانیف اور شعراء کے کلام کو یا تو نقل کرتے ہیں یا ان کے مسودے میں سے الفاظ چرا کر اسے اپنا نام سے شائع کروا دیتے ہیں اور اس پہ مزید برا یہ کہ اشاعتی اداروں سے منسلک نمائندے بنا جانچ پڑتال کے نوآموز لکھاریوں کی تحاریر کو دھڑا دھڑ شائع کرتے جاتے ہیں۔
عصر حاضر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ادبی اصناف کی چوری کے خلاف آواز اٹھائی جائے اور اس کی برائیوں اور نقصانات سے نوآموز لکھاریوں کو آگاہ کیا جائے کہ کسی دوسرے کی تحریر کو اپنے نام دے کر شائع کروانا اخلاقی جرم ہے اور اس کے لیے ہم سب کو بچوں کی نوعمری سے تربیت کرنا ہو گی تاکہ ہماری نوجوان نسل چوری کو ہنسی مذاق نہیں بلکہ گناہ سمجھے۔