Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hamza Bhatti
  4. Super Power Maza Aya

Super Power Maza Aya

سوپر پاور مزہ آیا؟

پاکستانی سیاست پر تو بات چلتی ہی رہتی ہے میں نے سوچہ آج کچھ بین الاقوامی سطح پر کیا چل رہا ہے اس بارے میں تھوڑی سی بات ہو جائے۔ پاکستان اور افغانستان جنوبی ایشیا کے دو اہم پڑوسی ممالک ہیں۔ دونوں ممالک تاریخی، جغرافی، لسانی، نسلیتی اور مذہبی وابستگی رکھتے ہیں۔ دونوں ممالک کے تعلقات 1947 سے شروع ہوئے جب پاکستان ایک آزاد ملک بنا۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے کہا تھا کہ افغانستان اور پاکستان دو ایسے بھائی ہیں کہ جن کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اس لیے کہا تھا کیونکہ دونوں ممالک کا ایک تاریخی، جغرافی اور مذہبی تعلق ہے خاص کر سرحد کے دونوں جانب پشتون آباد ہیں جن میں رشتہ داریاں اور مل ملاپ ہوتا ہے۔

لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہے کہ 30 ستمبر 1947ء کو افغانستان دنیا کا واحد ملک بنا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا۔ اور اس کے علاوہ ستمبر 1947ء میں ہی افغان حکومت نے کابل میں افغان جھنڈے کے ساتھ " پشتونستان" کا جعلی جھنڈا لگا کر آزاد پشتونستان تحریک کی بنیاد رکھی۔ اور بھی بہت سے معاملات ہیں جن کی وجہ سے ہماری اور افغانستان کی کشیدگی چلتی رہتی ہے۔ کبھی وہ الزامات لگاتے ہیں کہ آپ کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہو رہی اور کبھی ہم جواباً الزامات لگاتے رہتے ہیں کہ بھارت آپ کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ یہ تو چلتا رہتا ہے۔ لیکن ایک بات تو حقیقت ہے کہ پاکستان میں مکمل امن افغانستان کے امن سے منسوب ہے۔ اگر وہاں امن بحال رہے تو ہم بھی دہشتگردی جیسی لعنت سے کسی حد تک بچے رہیں گے کیونکہ کہی نا کہی اتنا قریبی پڑوسی ہونے کی وجہ سے ہم پر ان کے حالات کے اثرات ضرور پڑتے ہیں اس کی سب سے بڑی مثال ۹/۱۱ کا واقعہ ہی لے لیں۔

سن 1979 میں جب سودیت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو ایک عام تاثر یہی تھا کہ افغانی اتنی بڑی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکیں گئے اور دنیا کے نقشے سے مٹ جائیں گئے مگر:

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے

اللہ تعالیٰ نے پاکستان، امریکہ، سعودی عرب اور ایران وغیرہ کو وسیلہ بنا کر ان کی وہ مدد کی کہ افغانستان کی بجائے سودیت یونین کے ٹکرے ٹکرے ہو گۓ۔ اور ان کو ذلت آمیز شکست ہوئی۔ اس وقت بھی یہی طالبان جو اس دور میں افغانی مجاہدین کہلاتے تھے مرد مجاہد ثابت ہوئے۔ بنیادی طور پر ان کو پیدا ہم نے خود کیا بعض لوگ جنرل ضیا الحق شہید کو ان کا تخلق کار سمجھتے ہیں اور اس بات میں کسی حد تک حقیقت بھی ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہی امریکا جو آجکل ان کا دشمن بنا ہوا ہے ان کی اس وقت مالی امداد کیا کرتا تھا تاکہ بعد میں ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکے کیونکہ وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ چلتے پھرتے بمب ہیں۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کی ایجنسی سی آئی اے اس دور میں ان کی مالی مدد کیا کرتی تھی۔

جنرل پرویز مشرف اپنی کتاب "سب سے پہلے پاکستان" (باب عمر اور اسامہ) میں لکھتے ہیں کہ امریکہ سمیت ہم سب نے افغان مہاجرین جو بعد میں طالبان کی شکل اختیار کرگئے کو اصل میں اپنے مقاصد کے لیے تیار کیا تھا۔ لیکن وہ جب سودیت یونین کو شکست دے بیھٹے تو ان کے حوصلے مزید بلند ہوگئے۔ اور انھوں نے وہاں پر اپنا ایک سٹیٹس بنا لیا۔ وہ سمجھ دار تھے عقل کی کمی اصل میں امریکہ اور اس کے ساتھیوں میں تھی جن میں پاکستان بھی اس وقت شامل تھا۔

1988 میں سودیت یونین کی شکست کے بعد 24 جون سن 1994 میں طالبان نے " ملا محمد عمر " کو اپنا لیڈر تسلیم کر کے جہاد شروع کر دیا۔ اس وقت افغانستان میں قتل و غارت عام تھی۔ لیکن جب 27 ستمبر سن 1996 کا دن آیا جب طالبان کا پرچم افغانستان میں لہرایا گیا تو اس کے بعد طالبان نے حالات کو تقریبا کنڑول کر لیا۔ اور پھر 9/11 تک افغانستان میں حالات بہت حد تک بہتر رہے۔ 11 ستمبر سن 2001 کو جب ولڈ ٹریڈ سنٹر کا واقعہ ہوا تو اس کے بعد پھر سے ایک دفعہ افغانستان کے برے حالات شروع ہو گئے۔ کیونکہ امریکہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس پر اس طرح کوئی حملہ کرے گا۔ اور وہ بھی ان کے ہی پیدا کردہ افغان مجاہدین (طالبان)۔ وہ ایک طرح سے حواس بختہ ہو گئے کہ یہ کیا ہو گیا۔

جنرل پرویز مشرف لکھتے ہیں کہ مجھے اس واقعہ کے بعد اگلے دن امریکی وزیر خارجہ جنرل کولن پاول کی فون کال آئی اور انھوں نے صاف صاف کہا کہ "یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا خلاف "۔ امریکہ اس واقعہ کے بعد افغانستان پر چڑھ دوڑا اور سودیت یونین کی طرح اس پر مکمل قبضے کے ادارے سے آیا۔ القائدہ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی تو امریکہ کا سب سے بڑا نشانہ اسامہ بن لادن بن گیا۔ اس کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھے۔

جنرل سید پرویز مشرف کے مطابق ان حملوں میں اسامہ بن لادن کے بعد بہت بڑا کردار خالد شیخ محمد کا بھی تھا جسے KSM بھی کہا جاتا ہے۔ بلکے یہ منصوبہ تیار ہی خالد شیخ محمد نے کیا تھا کیونکہ وہ اس قسم کی منصوبہ بندی پہلے سن 1993 میں کر چکا تھا لیکن ناکام رہا لیکن اس بار کیونکہ وہ القائدہ کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کر رہا تھا اس لیے کامیاب رہا۔ خالد شیخ محمد کے بارے میں یہ بھی مشہور تھا کہ اس کا مقصد تھا کہ جہاں امریکی ملیں ان کو ختم کر دیا جائے۔ یعنی امریکہ کو سب سے بڑا دشمن سمجھتاتھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ساری منصوبہ بندی کا ملا محمد عمر کو کوئی علم نہ تھا مگر وہ یہ ضرور جانتا تھا کہ اسامہ اور کےایس ایم کوئی بڑی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

امریکہ نے پاکستان سے کہا کہ کیونکہ آپ کے طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں اس لیے ملا محمد عمر سے کہیں کے اسامہ بن لادن کو ہمارے حوالے کر دے۔ پاکستان نے خطے کے وسیع تر مفاد میں ملا محمد عمر سے بات کی مگر بے سود کیونکہ طالبان اپنے مہمان اور خاص کر اسامہ جیسے کو تو کسی قیمت ان کے حوالے کرنے کو تیار نہ تھے۔ امریکہ کا غصہ اب بڑھتا جا رہا تھا وہ طالبان اور القاعدہ نیٹ ورک کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ساری دنیا کو اپنے ساتھ ملا لیا کیونکہ کون امریکہ جیسی سپر پاور کے مقابلے میں ان تقریباً ساٹھ ہزار طالبان کا ساتھ دیتا۔ اڑتالیس ممالک نے تو اپنی فوج بھی امریکہ کی مدد کےلیے بھیج دی۔

لیکن سپر پاور جسے تمام ممالک کی حمایت حاصل تھی کو صرف تقریباً 60 ہزار طالبان نے ایسی شرمناک شکست دی کے ساری دنیا کے لبرل حیران و پریشان ہیں۔ اور ان کی چیخیں نکل رہی ہیں کہ یہ کیا ہو گیا۔ اکتوبر 2001 سے ہم جس کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان جہادیوں کو امریکہ نیست و نابود کر دے گا۔ اور ہمارے دل کو سکون ملے گا ان لبررز کو منہ کی کھانی پڑی ہے اب سب منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔

اور بےشک جو حق پر ہو اس کو کوئی شکست نہیں دے سکتا جیسا کے اللہ تعالیٰ اپنے آخری کلام میں فرماتے ہیں: "بار ہا ایسا ہوا ہے کہ اک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے بڑے گروہ پر غالب آ گیا " (البقرہ: 149)

اب وہ تمام دانشور جو سپر پاور کی پچھلے بیس سال سے اس معاملے میں مسلسل پرستش کرتے چلے آ رہے ہیں آجکل ان کو سکون کی نیند بھی میسر نہیں اس قدر پریشان ہیں بچارے۔ وہ بچارے تو پچھلے بیس سال سے روزانہ طالبان کو ختم کر کے سوتے تھے۔ لیکن کیا کریں جو اللہ کو منظور ہو۔

سینئر تجزیہ کار جنہیں میں اپنا استاد مانتا ہوں اوریا مقبول جان صاحب کے بقول جب سن 1979 میں روس افغانستان میں داخل ہوا تو سوات اور بنیر کے پہاڑوں کے درمیان ایک کٹیا میں رہنے والے ایک صاحب نظر نے کہا تھا کہ روس مار کھائے گا، پھر امریکہ آئے گا، مار کھائے گا اور پھر ایک دن ایسا آئے گا کہ پاکستان اور افغانستان ایسے ہوں گے جیسے ایک ملک، درویش صفت کی دو پیش گوئیاں تو پوری ہو چکی تیسری ناجانے کب پوری ہو گئی۔ اور ہو گی بھی کہ نہیں۔

لیکن ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ ان طالبان میں کچھ نا کچھ تو ضرور ہے کہ دو بڑی طاقتوں کے ساتھ عرصہ دراز تک جنگ کرتے رہے وہ دونوں تھک ہار کر چلے گئے مگر یہ ثابت قدم رہے۔ سودیت یونین بھی تقریباً نو، دس سال ان سے جنگ کرتا رہا اور باآخر تھک کر چلا گیا اور اب امریکہ جیسا سپر پاور تقریباً بیس سال ان سے لڑتا رہا بشمول آڑتالیس ممالک کی افواج کی حمایت کے مگر آخر کار وہ بھی تھک ہار کر جا رہا ہے۔

موجودہ وزیر اعظم محترم عمران خان بھی جب سے سیاست میں آئے ہیں ان کا بنیادی مقصد یہی رہا ہے بلکہ جب میانوالی سے واحد سیٹ پر رکن قومی اسمبلی تھے ان کا اس بارے میں بڑا واضح موقف تھا کہ طالبان سے مذاکرات کرنے چاہیں، جنگ کوئی حل نہیں۔ مگر اس وقت عمران خان صاحب کو طالبان خان جیسے لقب دیے جاتے تھے۔ لیکن سپر پاور نے طاقت کے نشے میں دھت ہونے کی وجہ سے طالبان سے ہمیشہ مذاکرات کرنا توہین سمجھا جبکہ اس کا حل باآخر مذاکرات ہی سے ہوا۔ پاکستان نے میرے خیال میں اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اٹھایا۔

کچھ دن پہلے ایک بڑی زبردست خبر آئی کہ وزیر اعظم پاکستان نے امریکی ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ سے ملاقات کرنے سے انکار کیا اور پھر امریکی وزیر خارجہ سے یہ کہتے ہوئے بات کرنے سے انکار کیا کہ یہ سفارتی اصولوں کے منافی ہے۔ کیونکہ سربراہ مملکت سے دوسرے ملک کے سربراہ کو ہی بات کرنی چاہے۔ یہ امریکہ کے لیے بڑا حیران کن ہوگا کیونکہ وہ تو اس پاکستان کو جانتے تھے جس سے وہ جب چاہتے اڈے لے لیتے اور جب چاہتے کسی کی جنگ میں دھکیل دیتے۔ مگر اب ان کو سجھ لینا چاہیے کہ اب پاکستان کے حکمران تبدیل ہو چکے ہیں۔

بہر حال سودیت یونین کے بعد سپر پاور کی شکست بہت سے لبرر ہضم نہیں کر پا رہے۔ ان کے لیے آخر میں یہی مفت مشورہ ہو گا کہ مخالف کو کبھی کمزور نہیں سمجھنا چاہیے۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Siasat Yoon Hoti Hai

By Mubashir Ali Zaidi