Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hamza Bhatti/
  4. Khata Hai To Kya Hua, Lagata Bhi To Hai

Khata Hai To Kya Hua, Lagata Bhi To Hai

کھاتا ہے تو کیا ہوا لگاتا بھی تو ہے

جو افراد یہ فقرہ بول کر ان بددیانت حکمرانوں اور قائدین کے لیے جواز پیش کرتے ہیں، ایسے لوگ کیا وہ اپنے گھر میں ایسا خانساماں ملازم رکھیں گے جو انہیں کھانا پکا کر دے لیکن ساتھ ہی راشن کا ایک حصہ چوری کرتا رہے، ایسا ڈرائیور جو گاڑی اچھی چلائے لیکن پیٹرول چوری کرے اور آہستہ آہستہ نئے پرزے بیچ کران کی جگہ ناکارہ لگاتا رہے، کیا یہ لوگ اپنی دکان، کارخانے، مِل، کھیت کھلیان یا فیکٹری پر ایسے ہنر مند ملازم رکھیں گے جوکام میں توطاق ہوں لیکن ان کی آنکھوں کے سامنے ہی ان کا مال چوری کریں۔ یہ معاملہ صرف مالی بددیانتی تک محدود نہیں بلکہ اس کا تعلق ہماری زندگی بھر کی تمام تر اخلاقیات کے ساتھ ہے۔ کیا کوئی خاوند ایسی بیوی کو یا بیوی ایسے خاوند کو برداشت کر سکتی ہے جو اس کے بھی حقوق ادا کرے، لیکن اس نے لاتعداد دوستیاں اور یارانے پال رکھے ہوں، کیا کوئی ایسے لڑکے یا لڑکی کو اپنی اولاد کا رشتہ دے سکتا ہے جس کی عرفِ عام میں شہرت بری ہو اور وہ لاکھ کہتا پھرے کہ آج تک میرا کسی عدالت سے جرم ثابت نہیں ہوا۔ لیکن پاکستان کی بدنصیبی اور بدقسمتی یہ ہے کہ ہرروز ایک نیا سکینڈل سامنے آتا ہے، ایک نیا ثبوت منظرِ عام پر آتا ہے مگراس ملک کی سیاست کی ڈھٹائی کا عالم یہ ہے، کہ لوگ جانتے بوجھتے، سوچتے سمجھتے ہوئے جلسوں، جلوسوں اور ٹیلی ویژن مباحثوں میں ان کا دفاع کرتے ہیں۔ کچھ ان کے حق میں اپنے قلم کی سیاہی بھی استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو قائل کرتے پھرتے ہیں کہ "کھاتا ہے تو کیا ہوا لگاتا بھی تو ہے"۔

پاکستانی تاریخ کا بدترین مقبولِ عام جملہ "کھاتا ہے لیکن لگاتا بھی تو ہے"، اس ملک کی بدقسمتی اور بدنصیبی کا آئینہ دار ہے۔ جس ملک میں عام آدمی اس بات پر راضی ہو جائے کہ اس کی قیادت ایسے چوروں کے ہاتھ میں ہی بھلی ہے جو گھر کا صفایا کرتے وقت ان کے لیے تھوڑا کچھ چھوڑ جاتے ہیں تاکہ نقصان کا احساس کم ہو اور مکمل طور پر نہ لٹ جانے کے احساس سے کوئی واویلا نہ مچائے، تو پھر ایسے ملک کے نصیب میں بحیثیت مجموعی کبھی خوشحالی آسکتی ہے اور نہ اطمینان۔ ایسا سوچنے والے اگر کسی مذہب کو ماننے والے ہیں تو پھروہ دولتِ ایمان سے یکسر محروم ہو تے ہیں، کیونکہ دنیا کا کوئی مذہب، یہاں تک کہ دنیا کا کوئی سیکولر، لبرل، کیمونسٹ اور ملحد بھی ایک بددیانت، چور، لٹیرے اور خائن کو مجبوراً بھی قیادت کے منصب کا اہل نہیں سمجھتا۔ ایسے لوگوں کو اپنا قائد اور رہنما تسلیم کرنے والے افراد کے لیے سب سے نرم لفظ "دہرے معیار کے حامل" اور سخت لفظ "منافق" استعمال ہوتا ہے۔

پاکستانی سیاست کا تو رواج بن گیا ہے کہ الیکشن لڑنے پر جتنا پیسہ لگایا جاتا ہے جیتنے کے بعد اقتدار کو استعمال کرتے ہوئے وہ سارا پیسہ جو لگایا اور آئندہ الیکشن پر ہونے والا خرچ بھی بطور سود وصول کیا جاتا ہے۔ اس ملک و قوم کی اصل فکر تو انھیں ہی تھی جنہوں نے دن رات محنت کر کے یہ ملک بنایا۔ وہ ہی یہ الفاظ کہہ سکتے تھے کہ جتنے مہمان آئیں اتنے ہی سیب لائے جائیں اور ایک بھی زیادہ ہوا تو برہمی کا اظہار کرتے۔ کہاں سے لائیں اب وہ حکمران جو اقتدار کی کرسی پر بھی ہوتے مگر پھر بھی اپنا تمام خرچ اپنی جیب سے ادا کرتے ناکہ آج کی طرح قومی خزانے پر اپنا ہاتھ صاف کرتے۔

جب ہم یہ خبر پڑھتے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت سپر پاور امریکہ کے سابق صدر جو آٹھ سال اقتدار کی کرسی پر بیٹھے رہے وہ آج کل کرایے کے مکان میں رہتے ہیں تو دل میں یہ خواہش اٹھتی ہے کہ کاش ہمیں بھی کوئی ایسا حکمران میسر آئے۔ اسی بات سے ان جیسوں کا اس قدر طاقتوار اور ترقی یافتہ ہونا سمجھ میں آتا ہے۔

کھاتا ہے تو کیا ہوا لگاتا بھی تو ہے، زرا غور کریں کہیں دوسرے لفظوں میں چوری کے عمل کو جائزقرار تو نہیں دے رہے؟

یہ یاد رکھے نبی پاکﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ (جو نبی کریمﷺ کو سب سے زیادہ عزیز تھیں) چوری کرتی تو انکے ہاتھ بھی کاٹ دیے جاتے۔۔۔ پھر کیا امیر لوگوں پر ہر جرم معاف ہے؟ جب غریب اپنے بھوکے بچے کے لیے چوری کرتا ہے تو اسےبھی جائز قرار کیوں نہیں دیا جاتا؟

کچھ دن پہلے اک ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں اسی جملے "کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے" کو مزاح کے انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ ایک دوست لوگوں سے اپنے ساتھ بیھٹے ایک دوست کے بارے میں کہہ رہا تھا کہ دیکھو یہ کتنا بےفیض ہے کہ میں نے اس کی اتنی مدد کی اور اس نے میرا شکریہ تک ادا نا کیا۔ پھر خود ہی بتانا شروع کرتا ہے کہ اس کے پاس 23، 24 ایکڑ زمین تھی میں نے وہ گروی رکھوا کر کچھ پیسے خود رکھے اور باقی پیسوں سے اسے ٹریکٹر لے دیا تقریبا چھ ماہ گزرے تو بینک والے قسط لینے کے لیے آ گئے پھر میں نے اس کا گھر گروی رکھوا دیا کچھ پیسے خود رکھ لیے اور باقی اسے قسط ادا کرنے کے لیے دے دیے۔ چھ ماہ پھر گزرے تو بینک والے دوسری قسط کے لیے آگئے اب کی بار میں نے اس کے سارے مال مویشیوں کو بیچ دیا کچھ پیسے خود رکھے اور باقی سے اس نے قسط ادا کی۔ میں نے اس پر احسان کیا اسے ٹریکٹر لے کر دیا (بلکل اسی طرح جیسے ہمیں میٹرو بس، اورنج ٹرین اور بائی پاس ملے) اور یہ ہے کہ میرا احسان ہی نہیں مانتا۔ ہاں مگر کچھ لوگ ضرور سمجھتے ہیں کہ اسے اپنے دوست کا احسان مند ہونا چاہیے اسی طرح کچھ لوگوں کے خیال کے مطابق ہمیں بھی اپنے ان حکمرانوں کا شکر گزار ہونا چاہیے جو "کھاتے تھے تو کیا ہوا لگاتے بھی تو تھے"۔

ہمارا معیار تو یہ تھا کہ حکمران سے پوچھتے تھے کہ بتاؤ ایک زائد چادر کہاں سے آئی۔ اب پستی یہ ہے کہ کہتے ہیں کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے.اور حکمران بجائے اس کہ کہتا میرے اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں تو تمہیں اس سے کیا وہ ہر بات کا جواب دینا فرض سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ دریا کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس کا ذمہ دار قیامت کے روز میں ہوں گا اور آج کے حکمران کتا تو دور کی بات انسان مرتا دیکھ کر اس کے لیے کچھ نہیں کرتے۔

اب سوچنے کی بات ہے کہ ایوان بالا (سینٹ) کے انتخاب میں جو شخص پچاس سے ستر کروڑ خرچ کر کے اس کا رکن بنتا ہے تو کون اس بات کی حامی بھرتا ہے کہ وہ پچاس سے ستر کروڑ اس نے عوام کے لیے بہترین قوانین بنانے کے لیے خرچ کیے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے وہ اپنے اور اپنے ساتھیوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہی اتنی محنت کر کے آیا ہے اور وہی کام سرانجام دے گا۔ اور یہ کتنا ہی بےہودہ نظام ہے جس میں پیسے سے ان ارکان اسمبلی جن کو عوام اس لیے منتخب کرتی کہ وہ بہتر طریقے سے ان کی نمائندگی کریں وہ اپنے ضمیر کا سودہ کر کے کرپٹ لوگوں کو ایوان بالا جیسے مقدس ایوان کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ بنیادی طور پر اس حمام میں سب ننگے ہیں اب تحریک انصاف جو کرپشن سے پاک و صاف ہونے کا نعرہ لگا کر آئی تھی اس کو بھی حکومت میں ہوتے ہوئے اس بات کا خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ ہمارے ارکان کہیں ضمیر کا سودہ نا کر بیٹھیں۔ اور یہ ڈر ہے بھی بجا کیونکہ آصف زرداری جیسے کھلاڑی بھی اس کھیل میں موجود ہیں جو پچھلے سنیٹ انتخاب میں پختون خواہ اسمبلی سے چھ ارکان کے ہوتے ہوئے دو سنیٹر منتخب کروا گئے جو کسی جادو سے کم نہیں۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔

About Hamza Bhatti

Ameer Hamza Umer Bhatti is from Sargodha. He is a student and studies BS Department of English literature in University of Lahore (SGD Campus). He loves to write on social and political issues. He wants to become a journalist.

Check Also

Pakistani Ghante Ki Qeemat

By Maaz Bin Mahmood