Jahannam Ki Air Conditioning Ka Theka (5)
جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ(5)
معیشت اور سیاست آپس میں conjoined twins کی طرح جڑے ہیں۔ دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کے منشور اور نعرے معاشی وعدوں اور خوابوں کے اردگرد گھومتے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت سے نجات کی نویدیں، ترقی اور خوشحالی کی بشارت اور پھر اس سے منسلک قومی عظمت کے حصول کا مژدہ۔ ان خوابوں کے ساتھ انسانی جبلت کے دوسرے رخ یعنی خوف کو بھی بیچا جاتا ہے کہ اگر دوسرے آ گئے تو یہی خواب nightmare میں بھی بدل سکتے ہیں۔
امریکہ سے لے کر پاکستان تک حکومت بنانے اور بگاڑنے میں زیادہ تر یہی سب کچھ کارفرما نظر آتا ہے۔ ایک لحاظ سے سیاست میں معیشت کی بحث نکال دیں تو ایک دوسرے کی ذاتی کردار کشی، ملکی سلامتی اور مذہبی اور سماجی اقدار کی حفاظت وغیرہ کے علاوہ شاید ہی کچھ بجتا ہے۔ ایسے میں سیاستدانوں کو اس بات پر قائل کرنا کہ وہ معیشت پر سیاست نہ کریں ایک بظاہر ناممکن کام ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اقوام کی زندگی میں کبھی کبھی ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب business as usual کی چوائس وقتی طور پر دستیاب نہیں رہتی۔ دوسری جنگ عظیم میں یورپ کے کئی ممالک پر یہ وقت آیا کہ ملکی سالمیت کے پیش نظر کئی سیاسی norms کو وقتی طور پر موقوف کیا گیا۔ چین اور روس وغیرہ میں تو انتظامی اور سیاسی امور پر کج بحثی کی گنجائش ہی نہیں رکھی گئی کہ ملکی سلامتی اور معیشت پر polarization ان کی منطق میں ملک کے لئے مفید نہیں۔
اس بات سے انکار نہیں کہ طویل مدت میں سیاست ہی معیشت کا بہترین رخ متعین کرسکتی ہے مگر بسا اوقات معاشی معاملات پر حد درجہ بڑھی ہوئی مخاصمت دراصل معیشت اور ملک کو برباد کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، خاص کر پاکستان جیسی کمزور معیشت جس کی day to day existence کا انحصار بین الاقوامی قرضوں سے جڑا ہو۔
پاکستان کے حالات کا گزشتہ پندرہ سال کا تجزیہ اس بات کی طرف واضح اشارے دیتا ہے کہ درست معاشی اقدامات پر اپوزیشن اور، عوامی دباؤ کا خوف اور عوام میں پذیرائی کی خواہش کے لئے کئے گئے غلط معاشی اقدامات، آج ہمیں اس نہج پر لے آئے ہیں کہ ہر تیسرے مہینے نادہند ہونے کا خوف ہمیں در در کا بھکاری بنا رہا ہے۔
ہمیں افغان جنگ کا مال غنیمت ملنا کوئی 2007 کے شروع میں بہت کم رہ گیا تھا۔ 2008 سے 2013 کے دوران آئی ایم ایف کے ریفارمڈ سیلز ٹیکس کے نظام کی شدید سیاسی مخالفت ہوئی۔ امپورٹڈ مہنگائی (تیل، اجناس) پر حکومت کے لتے لئے گئے۔ شرح سود بڑھانے پر نالائقی کے طعنے دئے گئے۔ نتیجتاََ اس حکومت نے بھی اندرونی اور بیرونی قرضے لئے، گردشی قرضے کا سدباب کیے بغیر لوگوں کو سستی بجلی دیتے رہے۔ ایم این اے اور ایم پی اے خوش رکھنے کے لئے ترقیاتی بجٹ بھی جا اور بےجا خرچ ہوا۔ دوسری طرف پنجاب میں لوگوں میں مقبولیت کے لئے بچت کی بجائے خرچ کو ترجیح ملی۔
2013 سے 2018 میں پی ٹی آئی نے وہی کچھ کیا جو پہلے پی ایم ایل این کر رہی تھی۔ اس عوامی دباؤ کے نتیجے میں اس وقت کی حکومت بھی دیرپا درست اقدامات کی بجائے سستے تیل اور بجلی کے چکر میں پڑی رہی۔ عوام کو کچھ کر دکھانے کے چکر میں قرض سے بجلی کی صلاحیت بھی لگا لی اور سڑکیں بھی بنا دیں۔ دنیا میں جب تیل کی قیمت 40 ڈالر فی بیرل کی کم ترین سطح پر تھی تو بھی اپوزیشن پاکستانی 65 روپے لٹر پٹرول کے خلاف احتجاج کر رہی تھی۔
2018 سے آج تک بھی وہی سلسلہ جاری ہے۔ پچھلے سال اپوزیشن کے دباؤ میں گزشتہ حکومت میں 650 ارب روپیہ کی پٹرولیم سبسڈی دے دی۔ گردشی قرضہ بڑھ کر 2500 ارب کو چھونے لگا مگر مشکل اور دور رس، فیصلوں کو آنے والے کل پر ڈالتے رہے۔ یہی حال موجودہ حکومت کا ہوا ہے کہ درست فیصلے کریں تو ووٹ اور حکومت دونوں سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔
معلوم نہیں یہ کیسے ہوگا؟ مگر عوام کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئیے کہ ہم معاشی گراوٹ کی جس منزل پر پہنچ چکے ہیں وہاں سے واپسی دس سے پندرہ سال کے درست سمت میں کئے گئے زیادہ تر نامقبول معاشی اقدامات سے ہی ممکن ہے۔ ان پندرہ سالوں میں گزشتہ پندرہ سالوں کی طرح تینوں بڑی قومی جماعتوں کو حکومت ملنے کا امکان ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ تینوں جماعتیں 2008 سے 2022 کا ماضی دوہرانا چاہیں گی یا ملکی سالمیت اور خوشحالی کیلئے درست مگر تلخ پندرہ سالہ معاشی پروگرام پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں گی؟
موجودہ حالات میں ایسا اتفاق رائے ناممکن دکھتا ہے مگر ڈر ہے کہ اگر ایسے اتفاق رائے میں ایک سال کی بھی دیر ہوئی تو یہ معاملات شاید کسی کے بس، میں بھی نہ رہیں۔ تینوں قومی پارٹیوں کی معاشی ٹیمیں یہ بات بخوبی جانتی ہیں کہ اس ملک کو اپنی بقاء کے لئے کیا کیا اقدامات کرنے ہیں مگر ہمارا تین سے پانچ سال کا سیاسی نظم اور ایک حکومتی مدت کے بعد دوسری مسلسل مدت حاصل کرنے کی خواہش ہمیں طویل المدتی درست اقدامات سے باز رکھتی ہے۔
درست ہے کہ جمہوری دنیا میں زیادہ تر یہی تین سے پانچ سالہ مدت رائج ہے اور اکثر اوقات یہ بندوبست اچھی معیشت سے متصادم نہیں ہوتا مگر ماضی کے پچاس سال کے غلط معاشی فیصلوں اور سیاسی جماعتوں کے ہاں الیکشن جیتنے سے بڑھ کر سیاسی حریف جماعت کو فنا کرنے کی خواہش اس پولرائزیشن پر منتج ہوتی ہے کہ حکومت کے لئے ہر لازمی مگر مشکل معاشی فیصلہ کرنا ناممکن ہو جاتا ہے اور ہم جان ناش کے lose lose equilibrium کے ڈبے، میں مقید رہ جاتے ہیں۔
اب جب کہ تینوں قومی جماعتوں کے معاشی قائدین اس راہ سے گزر کر اس کی مشکلات سے مکمل طور پر آگاہ ہو چکے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ ان کی انتہائی اخلاص سے بنائی ہوئی پالیسیاں اور ارادے کس طرح سے سیاسی مصلحت کوشی کی وجہ سے الماریوں میں دھرے رہ گئے، تو ضرورت اس بات کی ہے کہ مستقبل کے کسی سیاسی بندوبست میں جانے سے قبل ایک minimum مگر لازمی معاشی روڈ میپ پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔
اور اس باہمی اتفاق رائے میں ان قومی سلامتی سے جڑے معاشی معاملات کو ایک طرح سے depoliticize کر دیا جائے تاکہ آئندہ پندرہ برس میں ہم relative معاشی استحکام تک پہنچ سکیں۔ اس سلسلے میں حکومت اور اپوزیشن کے مل کر فیصلے کرنے کا ادارہ جاتی بندوبست بھی بنایا جا سکتا ہے۔ ان معاملات میں سر فہرست کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو کم کرنے کے اقدامات کو غیر سیاسی بنانا ہے۔
یاد رہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ کی تشکیل میں درآمدات، برآمدات، بیرونی سرمایہ کاری، ایکسچینج ریٹ، بین الاقوامی قرضے، تارکین وطن کی ترسیلات زر اور آئی ایم ایف وغیرہ سے ہمارے معاہدے شامل ہیں۔ ماضی میں رکوڈک، سینڈک، پرائیویٹائزیشن پر سیاست نے ہمیں بے پناہ مالی نقصان پہنچایا ہے۔ تارکین وطن کے پیسے بھیجنے سے روکنے تک کے نعرے بھی ہم سن چکے ہیں۔
آئی ایم ایف کو ملک بیچنے کا الزام گزشتہ تینوں حکومتوں پر لگا مگر یقین کیجئے کہ یہ تینوں پروگرام زیادہ تر تکنیکی سطح پر ہوتے ہیں اور سیاسی حکومتیں ان پر انتہائی بادل نخواستہ دستخط کرتی ہیں۔ کوئی پارٹی بھی اتنی غیر محب وطن نہیں ہوتی کہ ملک کو برضا اور بخوشی گروی رکھ دے۔ یہ پروگرام دراصل ہمیں درست وقت پر صحیح فیصلے نہ کرنے پر برسوں کی کاہلی کا بوجھ تین سال کی مختصر مدت پر ڈالتے ہیں۔
اسی طرح سے ہمارا بجٹ کا خسارہ ایک اور مصیبت ہے۔ انکم ٹیکس کا دائرہ کار بڑھائیں یا اس کے نفاذ پر سختی کریں تو کاروباری اور صنعتکار ناراض اور ہڑتال پر۔ سیلز ٹیکس لیں تو مہنگائی کا شور۔ دوسری طرف پی آئی اے، سٹیل مل اور ریلوے بند کریں تو ملازمین سڑک پر۔ سرکار کا ترقیاتی بجٹ کم کریں تو اسمبلیوں کے نمائندے ناراض۔ سرکار مدار کے خرچے کم کریں تو شور۔ بجلی، گیس قیمت خرید پر بھی بیچیں تو طوفان جبکہ گردشی قرض کی ادائیگی کے لئے اس قیمت پر پریمیم کی ضرورت ہے۔
ہر سکول کو کالج اور ہر کالج کو یونیورسٹی بنانے کا شوق۔ یورپ جیسے، ہسپتال بنانے کی آرزو۔ اور ان چیزوں کو روکیں تو ووٹ کیونکر ملیں؟ جس راہ پہ ہم سہج سہج رواں ہیں وہ ہلاکت ایک گہری کھائی کو جاتی ہے اور اس سے بچنے کا واحد راستہ ایک مہم جویانہ Rock climbing سے گزرتا ہے۔ اہل خرد اور اہل حکم کو یہ سوچنا ہے کہ کدھر کو جانا ہے۔