Jahannam Ki Air Conditioning Ka Theka (27)
جہنم کی ائرکنڈیشننگ کا ٹھیکہ (27)
احمد ندیم قاسمی ایک نہایت عمدہ شاعر اور افسانہ نگار تھے۔ وطن کی محبت میں ان کی کہی یہ نظم بہت مشہور ہوئی اور ہر قومی دن پر ٹی وی سکرینوں پر نظر آتی ہے۔ اس کے کچھ چنیدہ اشعار آپ کی یادداشتوں کے لئے۔
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
تمام نظم دعا اور مناجات کے لہجے میں ہے۔ قاسمی صاحب دعاؤں ایک طرح وطن میں ایک نہ ختم ہونے والی خوشحالی کی آرزو کرتے ہیں، یہاں کی زمین کو ہرے بھرے رہنے کی دعا دیتے ہیں۔ پھر اس ملک کے بین الاقوامی وقار بلند رہنے کی دعا کرتے ہیں اور آخر میں اس آنے والی خوشحالی کی منصفانہ تقسیم پر بات کرتے ہوئے ایک اور لازوال شعر کہتے ہیں کہ
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
اس نظم کی چاروں باتیں ہماری قومی منزل کا آرزو مندانہ نقشہ کھینچتی ہے۔ کہ اول خوشحالی اور ترقی ایسی آئے جو کچھ سال بعد اگلے بزنس سائیکل میں بیٹھ نہ جائے۔ یعنی قومی پیداوار کی تیز تر اور sustainable growth.
دوم، یہاں کی زمین کو سرسبز رہنے کی دعا جس کا عام مطلب یہاں کی زرعی پیداوار اور climate بھی ممکن ہے اور شعری معانی میں زراعت کے علاوہ دیگر ذرائع پیداوار میں اضافہ یعنی صنعت، پیداواری صلاحیت اور ترقی کے نئے مواقع کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہے۔
سوم، اقوامِ عالم میں ملک کی عزت، جہاں ملک بیشتر ملکوں کے سفر کے لئے ویزے کی سختیاں نہ ہوں۔ جس ملک میں غیر ملکی لوگ آنا، رہنا اور گھومنا پسند کرتے ہیں۔ جو ملک بیرونی سرمایہ کاری کی بہترین آماجگاہ ہو۔
چہارم، ملکی ترقی کے ساتھ وہ یہ خواہش بھی کر رہے ہیں کہ ترقی کے فوائد عام آدمی تک بھی ایسے پہنچیں کہ کسی کی زندگی وبال کی صورت اختیار نہ کرے۔
قاسمی صاحب ایک دردمند دل رکھنے والے شاعر تھے تو صرف دعا ہی کر سکتے تھے۔ یہ ان کا کام نہیں تھا کہ یہ بھی بتائیں کہ یہ لازوال ترقی اور خوشحالی کیسے آئے گی۔ مگر ایک مفکر اور دانشور کی طرح ایک درست سمت کی نشاندہی ضرور کرتے ہیں۔ یہ باتیں آئن سٹائن کی theory of relativity کی طرح کا سائنسی ادراک نہیں جس کو بعد کے آنے والے سائینسدان تجربات سے ثابت کریں۔ بلکہ یہ وہ فکر انگیز باتیں ہیں جو میرے آپ کے دل میں بھی ہیں اور قاسمی صاحب نے ان کو ترتیب لگا کر پورے شعری تقاضوں کے ساتھ یوں لکھا کہ اسے ایک طرح سے آنے والے دنوں کا منشور سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ الگ بات کے پاکستان کے آنے والے دن آنے سے گریزاں ہی رہتے ہیں۔ وہ جو دلاور فگار لکھ گئے کہ
حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہو گئے
مگر اچھی بات ہے کہ اس صدی کے پہلے چوبیس سال میں دنیا کے بہت سے ممالک "حالاتِ حاضرہ " کی قید سے نکل کر روشن مستقبل کی طرف چلے گئے ہیں۔ ان میں سے چین، بھارت، ویت نام اور بنگلہ دیش تو ہمارے ارد گرد ہی کے ملک ہیں۔
ان ملکوں کی مثال یہ بتاتی ہے کہ مادی اور دنیوی ترقی، چند مروجہ اصولوں پر قائم رہ کر حاصل ہو سکتی ہے۔ اس ترقی کی وجہ نہ بھارت کے ہندو مت کی پوجا پاٹ تھی، نہ چین کی لادینیت کا اس میں کوئی کردار تھا، نہ ویت نام کا بدھ ازم اور نہ ہی بنگلہ دیش کا دینِ حق پر ہونا۔ (ہر چند کے مذہب پر کاربند، بااخلاق اور باضمیر لوگ اگر نزاع میں نہ پڑیں تو اس ترقی کے عمل کو تیز تر کر سکتے ہیں)۔
سیاسی نظام کو دیکھیں تو بھارت کی دائیں بازو کو جھکی جمہوریت، چین کی واحد پارٹی (اب تو واحد حکمران بھی) ویت نام کا نیم سوشلسٹ طرزِ حکومت اور بنگلہ دیش کی اپوزیشن کو جیل میں ڈال کر رکھنے والی کنٹرولڈ جمہوریت سبھی میں طرزِ حکومت کی بنیادی so called خرابی کے باوجود پچھلے چوبیس سال سے بہت کایا پلٹ والی ترقی ہو رہی ہے۔
کہنے کا مقصد جمہوریت، اخلاقیات اور عقائد کی اہمیت کو کم کرنا نہیں بلکہ ان اسباب کو تلاش کرنا ہے جن سے ترقی ممکن ہو اور اگر اس ترقی کے ساتھ ہم اپنے عقائد اور نظریات کو بھی لے کر چل سکیں تو سمجھیں دنیا اور آخرت دونوں میں بیڑہ پار۔ ان ممالک کے تجربے سے یوں لگتا ہے کہ ترقی، خوشحالی، وقار اور عدم غربت کی دوا اچھے فیصلوں کے میڈیکل سٹور سے دستیاب ہے، وہ لے لیجئے اور اپنا طرزِ حکومت اور طرزِ زندگی بھی برقرار رکھئے کہ یہ اتاترک اور ماوزے تنگ کا زمانہ نہیں جہاں دنیا اور آخرت کی ترقی میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑتا تھا۔
معاشی ترقی کے اسباب فی زمانہ قدرتی ذرائع، انسانی سرمائے (human capital)، مشینی سرمائے، ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر اور کاروبار کے لئے آسان اور سازگار ماحول ہیں۔
خوشحالی، معاشی اسباب کی منصفانہ تقسیم سے جڑی ہے کہ انتہائی غریب (6 کروڑ) کو خطِ غربت سے اوپر کھینچا جا سکے اور کم غریب اور نچلے متوسط طبقے کو بہتر روزگار کے مواقع دستیاب ہوں۔
بین الاقوامی خوشگوار تعلقات، حالات کی مناسبت سے اپنے نظریات کو ترک کئے بغیر، صلحِ کل کے تحت تمام دنیا سے ایسا تعلق رکھنے میں ہے کہ بیرونی سیاح اور سرمایہ کار پاکستان آتے وقت نہ تو خوفزدہ ہوں اور نہ ہی ان کو اپنے سرمائے کے ضائع ہونے کا خدشہ ہو۔
یاد رہے کہ جب ہم ملک کی فضا اس طرح کی غیر یقینی رکھتے ہیں تو نتیجہ پاور کمپنیوں کی صورت کے معاہدوں میں نظر آتا ہے جس میں منافع اور سرمائے کی واپسی کاروبار کی بجائے ایک مالیاتی انسٹرومنٹ یا بانڈ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ہمارے ملک میں احتجاج سے راستے بند ہونے کی خبر ہو، خودکش دھماکے ہوں، لوگ سڑکوں پر جلائے جائیں، بین الاقوامی برینڈز کے خلاف مہم ہو، سٹیٹ بنک زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے بین الاقوامی کمپنیوں کا منافع باہر بھیجنے میں رکاوٹ ڈالے یا درآمدات کو روکے تو نہ تو باہر سے سرمایہ آتا ہے نہ سیاح اور نہ ہی کسی اچھے بین الاقوامی تاجر کی پاکستانیوں کے ساتھ کاروبار کرنے دلچسپی باقی رہتی ہے۔ اس صورتحال میں مزید خرابی ٹیکسوں یا نئی شرائط کی وجہ سے لاگت میں ایسے اضافے سے بھی آجاتی ہے جو کاروبار میں سرمایہ لگاتے وقت کی feasibility study یا کاروباری پلاننگ کا حصہ نہیں تھے۔
بڑا سرمایہ کار جب اربوں روپے لگانے کے لئے کاروبار "A" کا انتخاب کرتا ہے تو اپنی منصوبہ بندی کے تحت بیسیوں دوسرے ملکوں یا صنعتوں کو چھوڑ کر اس لئے یہ انتخاب کرتا ہے کہ اس کاروبار میں سرمایہ کاری پر منافع کسی بھی دوسری choice سے زیادہ ہے۔ لیکن جب بھی بڑی سرمایہ کاری کے بعد غیر متوقع طور پر input costs یا سرکاری محاصل میں اچانک بڑا اضافہ آجائے تو سرمایہ کاری ڈوبنے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے اور سرمایہ کار کی مزید سرمایہ کاری کی appetite بھی کم ہو جاتی ہے جس کا ایک منفی اثر مستقبل کے ممکنہ سرمایہ کار پر بھی پڑتا ہے۔
ہماری معاشی پالیسیوں کی ناہمواری بھی اب کوئی نصف صدی کا قصہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ کار بھی ہمارے اس رویے کو جان گئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہم Akerlof کے Adverse selection کے نتائج بھگت رہے ہیں جو اس نے اپنے مشہور مضمون Market of Lemons میں لکھے تھے۔ یعنی سرمایہ کار کی کوشش ہوگی کہ وہ اپنا سرمایہ جلد سے جلد نکالے اور اس لئے کم وقت میں زیادہ منافع کے مواقع ڈھونڈے۔ اس high risk high return والے معاملے سے جو elite capture پیدا ہوتا ہے وہ ہمارے معیشت کو مزید بدحالی کی طرف لے جاتا ہے۔
ترقی اور خوشحالی نجی شعبے اور حکومت کی مشترکہ کاوش سے آتی ہے۔ حکومت کی طرف سے غیر یقینی صورتحال کو کم کرنے، کاروباری لاگت زیادہ کرنے والے حکومتی کنٹرول کے خاتمے، predictable، منصفانہ اور مناسب ٹیکسوں اور کاروبار کے لئے سازگار ماحول اور انفراسٹرکچر کی فراہمی سے نجی اور بیرونی شعبے کی سرمایہ کاری میں دلچسپی بڑھتی ہے۔ ایک دفعہ ترقی کا سفر ایک معینہ رستے پر چل نکلے تو حکومتی وسائل خودبخود بڑھتے جاتے ہیں جنہیں غربت کے خاتمے اور عام عوام کی خوشحالی پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔
ہمارے موجودہ حالات بہت سے سالوں سے ہیں اور یقیناََ درست ہونے میں بہت سا وقت، بہت غور وفکر، بڑی منصوبہ بندی اور طویل مدت تک تمام سیاسی جماعتوں اور قوتوں کا معاشی اور سماجی معاملات میں یکسو اور یک سمت ہونا مانگتے ہیں جو مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں کہ بھارت، ویتنام، چین اور بنگلہ دیش بھی کبھی ہم جیسے تھے مگر آج ان کے حالات قاسمی صاحب کی دعا کی قبولیت کی سمت جاتے دکھتے ہیں۔
اگر ہم بھی کچھ دیر کے لئے مان لیں کہ قاسمی صاحب کی آرزو کچھ پالیسی تبدیلیوں اور کچھ حکومتی اقدامات سے ممکن ہے تو ان کو کرکے دیکھنے میں کوئی ہرج نہیں۔ کہ
آواز دے کے دیکھ لو، شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر، رائیگاں تو ہے